تبلیغی جماعت پر کیا جانے والا
ایک سوال اور اس کا جواب
سوال :تبلیغی جماعت میں چار ماہ یا اس سے زیادہ عرصے کے لئے جانے کا کیا حکم
ہے۔ نیز اس عرصہ میں بیوی کی ضرورت کا کیا
ہوگا، کیا وہ غلط طریقے اختیار نہیں کرلے گی۔
جواب:دین کی اشاعت کے لئے گھر سے باہر جہاد یا تبلیغ کے لئے جانے کا ثبوت آپ
ﷺ کے زمانے سے لیکر آج تک مسلسل موجود ہے۔ پہلے زمانے کی جنگیں ہمارے دور کی طرح
مختصر عرصے کی نہ ہوتی تھیں بلکہ طویل عرصہ تک محاصرہ کی ضرورت پیش آتی تھی جس
میں بعض دفعہ دو سے پانچ اوردس سال تک کا عرصہ بھی پیش آتا رہاہے۔چارماہ کے متعلق
جو حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی جو بات مشہور ہے کہ آپ نے فوج میں چار ماہ
بعد چھٹی کا حکم منظور فرمایا وہ اس سپاہ
کے لئے تھا جو صرف مورچوں پر موجود ہے اور باقاعدہ لڑائی میں حصہ نہیں لے رہی ،
ورنہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دور میں بہت
سی لڑائیاں ایسی ہوئیں جن میں ں سال بھر مرکز سے کمک بھی نہ بھیجی جاسکی چہ
جائیکہ گئے ہوئے مجاہدوں کو چھٹی مل سکتی ۔ اس کے علاوہ صوفیاء کے اپنی بیویوں کو چھوڑ
کر سالہاسال کی نفس کشی کرنے کے واقعات بے شمار ہیں۔
رہی بات عورتوں کے حقوق ادا کرنے کے متعلق نیز عورت کی ضرورت کا خیال رکھنے کے
متعلق تو حقیقت یہ کہ ہمارا آج کا معاشرہ عورت کو جس قدر شہوت زدہ ثابت کرنے پر
تلا ہوا ہے حقیقت اس کے خلاف ہے۔ اوپر مذکورہ بات کے لحاظ سے الزام کا دائرہ بہت
بڑا ہوجاتا ہے۔ آپ تمام بیوہ عورتوں کے کردار پر تہمت لگا رہے ہیں۔ آپ ان تمام
عورتوں جن کے شوہر کمانے کے لئے بیرون ِ ملک گئے ہیں پرالزام دھر رہے ہیں۔ ایسے
تمام جوڑے جو رنجشوں کی وجہ سےالگ ہیں ، بیویاں میکے میں چھ چھ ماہ ، سال سال سے
گئی ہوئی ہیں ان تمام کے کردار پر شک کررہے ہیں۔
حقیقت میں اس معاملے میں جتنا مرد کو عورت کی ضرورت ہوتی ہے اتنی عورت کو مرد
کی ضرورت نہیں ہوتی۔ اسی لئے مرد کو چار
بیویوں کی اجازت ہے ، جب کہ عورت کو نہیں ہے۔ یہ حقیقت میرے تمام شادی شدہ دوست
،خاص طور پر دین سے تعلق رکھنے والے دوست(یہ قید اس لئے کہ ان کے لئے سب کچھ اپنی
بیوی ہی ہوتی ہے)مانیں گے کہ شوہر بیچارہ حق ادا کرنے کے لئے بیوی کے پیچھے پیچھے
پھر رہا ہوتا ہے ، اور وہ آج نہیں کل پر ٹالتی رہتی ہے۔
ویسے بھی تبلیغی جماعت میں نئے شادی شدہ کو دو سال تک جماعت میں جانے پر
پابندی ہوتی ہے تاکہ وہ نئی بیوی کو پوری طرح خوش کرلے۔ اور اس کے بعد بھی وہ بیوی
کی اجازت اور مرضی کے مطابق جماعت میں جاتے ہیں۔
اگر بالفرض اوپرسوال میں ذکر کی گئی
بات میں کو ئی حقیقت ہوتی تو اللہ تعالی ٰ امہات المومنین کو حضور ﷺ کے بعد اتنی
لمبی زندگی عطا نہ فرماتے اور صحابہ کرام اتنی لمبی جنگیں نہ لڑسکتے اور نہ
ہی اتنا علاقہ فتح ہوسکتا۔
واللہ اعلم بالصواب
نوراکرم
No comments:
Post a Comment