Thursday, June 19, 2025

Why Shias, aren't non-believers-like Jews, Hindus, and Qadianis?

شیعہ  یہود ، ہنود اور قادیانیوں کی طرح کافرکیوں نہیں ہیں؟ 

وجۂ تحریر:

موجودہ ایران اسرائیل جنگ کے دوران اہل سنت والجماعت  نے شیعہ مسلک سے تعلق رکھنے والے ایران کو دل کھول کر سپورٹ کیا ہے۔ البتہ کچھ لوگ  اس معاملے میں بالکل تمام امت کے برخلاف ایک دوسرے کنارے پر کھڑے ایران کی حمایت کرنے سے کتراتے رہے۔ ان کو جس چیز نے  خصوصی طور پر تشویش میں مبتلا کئے رکھا ہے،وہ شیعہ حضرات اور ایران کے اہلسنت والجماعت  کی عوام پر کئے جانے والے عملی ظلم سے بھی زیادہ، الفاظ کے ذریعے  ہمارے مقدسات، محبوب ترین شخصیات  کے خلاف زبان اور قلم سے لگائے گئے کچوکے ہیں۔   اس ظلم کی تکلیف اتنی زیادہ ہے یہ حضرات شیخ الاسلام  مفتی تقی عثمانی  صاحب کے   کہنے کے باوجود بھی ایر ان کو سپورٹ نہیں کرپائے۔    ان حضرات کے سامنے ایران  اور شیعہ  حضرات کی جو شکل ہے اس کے بعد وہ ایران اور شیعہ کو یہود وہنود اور قادیانیوں کی طرح کافر سمجھتے ہیں۔  یہ مخصوص گروہ شیعہ حضرات کو سپورٹ کرتا  ہوا اگر وقت کے شیخ الاسلام کو بھی دیکھیں  تو اگرچہ زبان سے نہ  کہیں تو بھی  دل میں یہ   ان کے ایمان پر بھی شک کرتے ہیں۔ مولانا فضل الرحمان صاحب اور جے یو آئی کو تو یہ برملا منافق اور کیا کچھ کہہ جاتے ہیں، یقینا علمائے کرام تو یہ نہیں کہتے مگر ان کے کارکن جے یو آئی کے حضرات  کو ڈنکے کی چوٹ پر  کہتے ہیں۔  رہی بات جماعت ِ اسلامی کی تو اسے تو یہ شیعہ کی ہی بی ٹیم سمجھتے ہیں۔  کیونکہ جنگ میں توحید ِ کلمہ لازمی ہوتا ہے اور اختلا ف کے ساتھ   جنگ  فشل کا باعث ہے تو اس موضوع کو وضاحت کے ساتھ غور کریں گے۔

مخصوص گروہ کی رائے:

اس سلسلے میں ان حضرات کی رائے یہ ہے کہ چونکہ  شیعوں کےمقتدا حضرات کی کتابوں میں ایسی شدید قسم کی خباثتیں مرقوم ہیں  جنہیں آپ پڑھ بھی نہیں سکتے ۔ اور جب مقتداء حضرات کی کتابوں میں یہ عبارتیں موجود ہیں اور تمام شیعے ان حضرات کو اپنا مقتدا تسلیم کرتے ہیں۔ تو گویا کہ  ہر ہر شیعہ ان تمام باتوں کا قائل ، معتقد  اور عامل ہے ۔ لہذا جن  ۳۰۰ سے زیادہ صاحب بصیرت علمائے کرام نے شیعہ کو کا فرکہا ہے  تو یہ فتوی  ہر ہر شیعہ کے اوپر منطبق ہوتا ہے۔ اور ہر ہر شیعے  سے ویسے ہی نفرت کرنا ضروری ہے جیسا کہ ان باتوں کے مصنفین سے نفرت کرنا ضروری ہے۔ اور ان علمائے کرام نے جو شیعوں کے کفر کا فتوی ٰ دیا ہے تو یہ فتوی ایسا ہی ہے جیسا قادیانیوں کے خلاف فتوی ہے۔  تو جیسے قادیانی کفر کے فتوی کے بعد یہود ، نصاری ، ہندو اور  مجوس کی صف میں داخل ہوگئے ایسے ہی ہر ایک شیعہ  ہندوؤں کے درجے میں داخل ہے ۔  

پس منظر اور اکابر کاعمل:

دوسری طرف   جب پچھلی چودہ سو صدی کی تاریخ میں عمومی طور پر  اور پاکستان بننے سے لیکر   آج تک خصوصی طور پر  اپنے اکابر اہلسنت  کے عمل  کو دیکھا جاتا ہے تو ایک بالکل مختلف صورت نظر آتی ہے ۔ یعنی جب بھی  امت مسلمہ کوکفر اور سیکولر احباب کے مقابلے میں  کو ئی بھی انتہائی مسئلہ درپیش ہوا تو ہمارے اکابر نے شیعہ حضرات کو اپنے ساتھ کھڑا کرکے  برملا اظہار کیا  کہ ہم سب ایک ہیں۔ تحریک پاکستان کی بات کریں یا پاکستان میں اسلامی آئین کی جدوجہد  کی  یا قادیانیوں کو کافر قرار دینے کی یا متحدہ مجلسِ عمل  کی یا موجودہ صورتحال  کی۔ کبھی شیعہ حضرات کے ساتھ مجھے شیخ الاسلام شبیراحمد عثمانی  صاحب کھڑے نظر آتے ہیں تو کہیں مفتی شفیع عثمانی صاحب، تو کہیں مولانا احتشام الحق تھا نوی  صاحب ، کہیں مفتی محمود صاحب تو کہیں مفتی رفیع عثمانی صاحب  اور مفتی تقی عثمانی صاحب۔  میں نے نام صرف دیوبندی اکابر کے لئے ہیں ورنہ ہر جگہ بڑے بڑے بریلوی علماء اور اہلحدیث علماء بھی  موجود ہیں۔  صرف دیوبندی حضرات کا  نام لیکر ذکر کرنے کا مقصدان مخصوص لوگوں کی توجہ  حاصل کرنا ہے کیونکہ یہ مخصوص لوگ اور  جماعت ہمارا دیوبندیوں کا حصہ ہے ۔ انہوں  نے  صحابہ اور امہات المومنین  کی عزت اور توقیر عام کرنے  میں جوکردار ادا کیا  ہے وہ ہمارا سیروں خون بڑھادیتا ہے اور فخر سے سینہ چوڑا کردیتا ہے۔ اس کاز پر ان کی قربانیاں ہمیں ان کی بلائیاں لینے پر مجبور کردیتی ہے۔  مگر  شیعوں کے کفر میں ان کو یہود وہنود سے جوڑ دینا ایک انتہائی درجے  کی تفریط ہے۔ جو علمائے دیوبند  کے اعتدال سے نکلا ہوا عمل ہے ۔  اس آرٹیکل کو مختصر رکھتے ہوئے     بات واضح کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔  اور اس میں علمی بنیادوں پر بات کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔

تاریخ:

شیعہ حضرات نے  اہلسنت والجماعت کو ہر دور میں  الفاظ اور تلوار دونوں کے ذریعے تکلیف پہنچائی ہے۔ صحابہ ٔ کرام سے لے کر آج تک ہردور میں ان کے کفر  پر کتابیں لکھی گئی ہیں۔ شیعوں کے ظلم کی داستانوں سے  نہ صرف تاریخ کے   اوراق بھرے پڑے ہیں اور بڑے بڑے کبار علماء کی تصانیف میں سے اس کی جھلکیاں نظر آتی ہیں۔علامہ ابن تیمیہ نے ان کے خلاف جہاد کیا۔ ملاعلی قاری رحمۃ اللہ علیہ کے علاقے  ہرات پر صفویوں نے قبضہ کر کے اہلسنت والجماعت پر ظلم کیا اور منابر پر صحابہ کی توہین کی ، مجدد الف ثانی شیخ احمد سرہندی نے ان کے خلاف کتاب لکھی۔ بلکہ آج کے دور میں جو ایرانی اور بشاری ظلم اہلسنت نے جھیلا ہے وہ ہماری آنکھوں کے سامنے رس رہا ہے۔  مگر اس سب کے باوجو  د  اکثر علماء نے ہر دور میں ان کے  کفر کے فتوی دینے سے اجتناب کیا  کیونکہ اہلسنت والجماعت کا تکفیر میں  بنیادی اصول ہے  کہ اگر ایک کسی کے کسی بھی قول یا عمل کی  ۹۹ تاویلیں  کفر ثابت کریں اور صرف ایک تاویل سے اس کا مسلمان ہونا معلوم ہو تو اسے مسلمان ہی سمجھا جائے گا۔ دوسری طرف جن علماء نے ان  کے کفر کے فتاوی مختلف مواقع پر دئیے ہیں ان میں سے کسی نے بھی  شیعوں کو ہنود ومجوس جیسا کافر  نہیں کہا۔کسی نے بھی ہر ہر شیعہ کو کا فر نہیں کہا۔ کسی نے بھی شیعہ کو حج سے روکنے کی یا مقدس سرزمین میں داخلے سے روکنے کی کوشش نہیں کی۔  کسی نے ان کو شعائر اسلام چھڑوانے کی بات نہیں کی۔  آخر کیوں؟ اس مسئلہ  کو تفصیل سے سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ 

اہلسنت والجماعت کا عقیدہ

سب سے پہلے اہل سنت والجماعت کا عقیدہ ملاحظہ فرمائیں۔ 

«
وَنُسَمِّي أَهْلَ قِبْلَتِنَا مُسْلِمِينَ مُؤْمِنِينَ مَا دَامُوا بِمَا جَاءَ بِهِ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّم َ مُعْتَرِفِينَ وَلَهُ بِكُلِّ مَا قَالَهُ وَأَخْبَرَ مُصَدِّقِينَ»[1]

اور ہم اہل قبلہ  کو مسلمان مومن کہتے ہیں جب تک کہ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی لائی ہوئی شریعت کے معترف رہتے  ہیں اور آپ کے ہر فرمان اور خبر کی تصدیق کرتے ہیں۔

یعنی اہل سنت والجماعت اہل قبلہ کی تکفیر نہیں کرتے ۔ جب تک کہ وہ ضروریاتِ دین کے منکر نہ ہوں۔

 اس عقیدے کے دلائل:

اہلسنت والجماعت نے یہ عقیدہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مختلف فرامین کے نتیجے کے طور پر اختیار کیا ہے۔ وہ فرامین

 درج ذیل ہیں:۔

«عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ الله صلى الله عليه وَسَلَّمَ: (‌مَنْ ‌صَلَّى ‌صَلَاتَنَا، وَاسْتَقْبَلَ قِبْلَتَنَا، وَأَكَلَ ذَبِيحَتَنَا، فَذَلِكَ الْمُسْلِمُ، الَّذِي لَهُ ذِمَّةُ اللَّهِ وذمة رسوله، فلا تحقروا الله في ذمته)»[2]

حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا  کہ جو ہماری نماز پڑے اور ہمارے قبلے کی طرف منہ کرے اور اور ہمارا ذبح کردہ جانور کھائے تو وہ مسلم ہے جس کے لئے  اللہ اور  رسول کا ذمہ ہے  تو تم اللہ کے ذمے کو ہرگز مت توڑو۔

یہاں بعض لوگ  کہہ دیتے ہیں کہ یہاں تو حنفی شافعی کی نماز نہیں ملتی تو ان کے لئے عرض ہے کہ نماز سے مراد مسلمانوں کی نماز  ہے جس میں قیام، رکوع، قومہ ، سجدہ  ،جلسہ اور قعدہ پایا جاتا ہے برخلاف اہل کتاب کی نماز کے  کہ اس میں یہ تمام ارکان اس  ترتیب سے نہیں پائے جاتے۔

«ثَلَاثٌ مِنْ أَصْلِ الْإِيمَانِ: الْكَفُّ عَمَّنْ قَالَ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ ‌لَا ‌تُكَفِّرْهُ بِذَنْبٍ، وَلَا تُخْرِجْهُ مِنَ الْإِسْلَامِ بِعَمَلٍ، وَالْجِهَادُ مَاضٍ مُنْذُ بَعَثَنِي اللَّهُ إِلَى أَنْ يُقَاتِلَ آخِرُ أُمَّتِي الدَّجَّالَ، لَا يُبْطِلُهُ جَوْرُ جَائِرٍ، وَلَا عَدْلُ عَادِلٍ وَالْإِيمَانُ بِالْأَقْدَارِ[3]

تین چیزیں اصل ایمان میں داخل ہیں   جس نے لاالہ الا اللہ کہا اس سے باز آجانا، اسے کسی گناہ کی و جہ سے کافر قرار نہ دو، اور نہ ہی اسے کسی عمل کی وجہ سے اسلام سے نکالو، اور جہاد جاری ہے جب سے اللہ تعالیٰ نے مجھے مبعوث کیا یہاں تک کہ میری امت کا آخری  حصہ  دجال سے لڑائی لڑے  گا، نہ اسے کسی ظالم کا ظلم روکے گا اور نہ ہی کسی عادل کا عد ل، اور تقدیر پر ایمان لانا

 

«عن أنس، قال: قال رسول الله -صلَّى الله عليه وسلم-: " أُمِرتُ أن أُقاتِلَ الناسَ حتى يشهدوا أن لا إلهَ إلا اللهُ، وأن محمداً عبدُه ورسولُه، وأن يستقبِلُوا قبلتَنا، وأن يأكُلوا ذبيحتَنا، وأن يُصَلُّوا صلاتَنا، فإذا فعلوا ذلك حَرُمَتْ علينا دماؤُهم وأموالُهم، إلا بحقها: لهم ما للمسلمين، وعليهم ما على المسلمين" .[4]

حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں لوگوں سے قتال کروں  یہاں تک کہ وہ لاالہ الااللہ کا اقرار کرلیں، اور ہمارے قبلے کی طرف منہ کرلیں اور ہماری طرح نماز پڑھنے لگ جائیں۔ جب وہ یہ کرنے لگ جائیں گے تو ہم پر ان کے جان اور مال حرام  ہوجائیں گے سوائے حق کے ۔ انہیں وہ ملے گا جو مسلمانوں کو ملتا ہے ۔ اور ان پر وہ احکام ہوں گے جو مسلمانوں پر ہوتے ہیں۔

 

«حدَّثنا أُسامة بن زيدٍ، قال: بعثَنا رسولُ الله -صلَّى الله عليه وسلم- سريةً إلى الحُرقَاتِ، فَنُذِرُوا بنا، فهَربوا، فأدركْنا رجلاً، فلما غَشِيناه، قال: لا إله إلا اللهُ، فضربْناه، حتى قتلناه، فذكرتُه للنبي -صلَّى الله عليه وسلم-، فقال: "مَنْ لكَ بلا إله إلا الله يومَ القيامة؟ "، فقلت: يا رسول الله، إنما قالها مخافَةَ السلاح، قال: " أفلا شَققْتَ عن قلبه حتى تعلمَ مِن أجلِ ذلك قالها أم لا؟ مَنْ لكَ بلا إله إلا اللهُ يومَ القيامةِ؟ " فما زالَ يقولُها حتى ودِدْت أني لم أُسلم إلا يومئذ» [5]

حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ ہمیں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حرقات کے سریے میں بھیجا، ان لوگوں کو ہم سے ڈرا دیا گیا تو وہ بھاگ گئے۔ ہم نے ان میں سے ایک شخص کو پکڑ لیا جب ہم  نے اس پرقابوپالیا تو اس نے کہا لاالہ الا اللہ  ۔ ہم نے پھر بھی اسے قتل کردیا۔   میں نے یہ واقعہ جناب ِ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بتایا   تو آپ نے فرمایا کہ قیامت والے دن اس کے کلمے کے مقابلے میں  تجھے کون بچائے گا۔ تو میں نے عرض کی کہ حضور  وہ تو اس نے ہتھیار کے ڈر سے کہاتھا تو آپ نے فرمایا کہ  پھر تو نے اس کا دل چیر کر کیوں نہ دیکھا  کہ تجھے  اس کے کلمہ پڑھنے کا مقصد پتا چل جاتا ؟  تجھے اس کے کلمے سے کون بچائے گا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مسلسل یہ کہتے رہے یہاں تک کہ مجھے اتنی شرمندگی ہوئی کہ میں نے تمنا کی کہ کاش میں آج کلمہ پڑھ کر مسلمان ہوتا تاکہ یہ گناہ مجھ سے مٹ جاتا۔

قادیانی کیوں اہل قبلہ نہیں ؟

ان احادیث کی بنا پر  اہلسنت والجماعت کا مذکورہ بالاعقیدہ ہے کہ اہل قبلہ کی تکفیر نہیں کی جاسکتی ۔  اس بنیاد پر  مرزائی اور قادیانیوں کو چھوٹ اس وجہ سے نہیں مل سکتی کیونکہ وہ اہل قبلہ  میں داخل ہی نہیں ہیں۔ سکھوں کی طرح  جب وہ اپنے لئے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد ایک اور نبی کے قائل ہوئے تو وہ الگ ملت بن گئے اور ان کے کفر میں کوئی اشتباہ نہیں رہا۔ اس حدیث کا موضوع وہ لوگ ہیں  جو کہ مسلمان ہونے کے دعوے دار ہیں  اور نبیﷺ کے امتی ہونے کے دعوے دار ہیں۔ جس طرح مسلمان حضرت عیسی ٰ علیہ السلام پر ایمان لانے کے باوجو د عیسائی نہیں ہیں کیوں کہ ہم جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے امتی ہونے کے دعوے دار ہیں ۔ اسی طر ح قادیانی  اگرچہ دعویٰ کریں کہ ہم بھی نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے امتی ہیں تو ان کا یہ دعوی ٰ اسی لئے مسلم نہیں ہے کیونکہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد ایک  الگ نبی کے دعوے دار ہیں۔

علماء نے تکفیر کیوں کی؟

یہاں ایک اہم سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب شیعہ حضرات اہل ِ قبلہ ہیں اور ان کی واقعی  تکفیر نہیں کی جاسکتی تو اتنے بڑے علماء نے ان کو  کافر کیوں قرار دیا؟  تو اس کا  الزامی جواب یہ ہے کہ ان علماء سے بڑی شخصیت نے بہت سے  گناہوں کو کفر قرار دیا مگر ان کے ساتھ کافر کا معاملہ آپ بھی نہیں کررہے  ۔ پہلے میں وہ روایات پیش کرتا ہوں۔ 

کفر جو ملت  سے نہیں نکالتا:

«مَنْ عَقَدَ عُقْدَةً فِيهَا رُقْيَةٌ فَقَدْ سَحَرَ، وَمَنْ سَحَرَ فَقَدْ ‌كَفَرَ[6]

جس نے گرہ  لگائی اور اس میں  منتر پڑھا تو اس نے جادو کیا اور جس نے جادو کیا  وہ کافر ہوگیا۔

«قَتْلُ الْمُسْلِمِ ‌كُفْرٌ وَسِبَابُهُ فُسُوقٌ[7]

مسلمان کو قتل کرنا کفر ہے اور گالی دینا فسق ہے۔

«مَنْ أَتَى كَاهِنًا فَسَأَلَهُ وَصَدَّقَهُ بِمَا يَقُولُ، فَقَدْ ‌كَفَرَ بِمَا أُنْزِلَ عَلَى مُحَمَّدٍ عَلَيْهِ السَّلَامُ»[8]

جو کسی جادوگر کے پاس اور اس کی بات کی تصدیق کی تو اس نے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر اترے ہوے کا انکار کیا۔

«والمراء في القرآن ‌كفر»[9]

قرآن میں شک کفر ہے۔

«جدال في القرآن ‌كفر»[10]

قرآن میں جھگڑنا کفر ہے۔

«إِذَا ‌كَفَّرَ الرَّجُلُ أَخَاهُ فَقَدْ بَاءَ بِهَا أَحَدُهُمَا»[11]

 جب کوئی شخص اپنے بھائی کو کافر کہتا ہے تو ان میں سے کوئی ایک کافر ہوکر لوٹتا ہے۔

«مَنْ أَتَى حَائِضًا، أَوِ امْرَأَةً فِي دُبُرِهَا، أَوْ عَرَّافًا فَصَدَّقَهُ بِمَا يَقُولُ، فَقَدْ ‌كَفَرَ بِمَا أُنْزِلَ عَلَى مُحَمَّدٍ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ»[12]

جس نے حائضہ   بیوی سے صحبت کی  یا عورت  کی دبر میں  کی  یا کسی نجومی کے پاس اور اس کی بات کی تصدیق کی تو اس نے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر نازل شدہ شریعت کا کفر کیا

«مَنْ كَذَّبَ بِالْقَدَرِ أَوْ خَاصَمَهُمْ فَقَدْ ‌كَفَرَ بِمَا جِئْتُ بِهِ»[13]

جس نے تقدیر کا انکار کیا یا  تقدیر کا انکار کرنے والوں سے بحث کی  تو اس نے میرے لائی شریعت کا کفر کیا

«إِذَا قَالَ الرَّجُلُ لِلرَّجُلِ: أَنْتَ عَدُوٌّ لِي، فَقَدْ ‌كَفَرَ أَحَدُهُمَا بِالْإِسْلَامِ "»[14]

جب ایک آدمی دوسرے کو کہتا ہے کہ تو میر ا دشمن ہے تو ان میں سے کسی ایک نے اسلام کا کفر کیا۔

«قِلَّةُ الْحَيَاءِ ‌كُفْرٌ»[15]

حیاء کا کم ہونا کفر ہے۔

یہ صرف کچھ روایات نقل کی ہیں ۔ اس سے بھی بڑھ کر خود قرآن کریم میں  بتائے گئے ایک جگہ کفر کی تاویل کی گئی ہے۔

"وَمَن لَّمۡ يَحۡكُم بِمَآ أَنزَلَ ٱللَّهُ فَأُوْلَٰٓئِكَ هُمُ ٱلۡكَٰفِرُونَ ٤٤"[16]
 یعنی  جو اللہ تعالیٰ کے نازل  کردہ کے مطابق فیصلہ نہ کرے تو وہی لوگ  پکے کافر ہیں۔

اس آیت کی تشریح مفسر قرآن عبداللہ بن عباس سے منقول ہے۔


« قال ابن عباس: ليس بالكفر الذي يذهبون إليه. وقال طاوس: سئل ابن عباس عن هذه الآية فقال: هو به كفر، وليس كمن كفر بالله وملائكته وكتبه ورسله، وقال أيضاً: كفر لا ينقل عن الملة. وقال سفيان عن ابن جريج عن عطاء: كفر دون كفر، وظلم دون ظلم، وفسق دون فسق» [17]

حضر ت ابن عباس نے فرمایا کہ یہ وہ کفر نہیں ہے جس کی طرف  یہ لوگ(خوارج) جاتے ہیں۔ اور طاؤس کہتے ہیں حضرت ابن عباس سے اس آ یت شریفہ کے بارے میں پوچھا گیا تو   آپ  نے فرمایا کہ اس میں کفر ہے مگر یہ اس شخص کے کفر کی طرح نہیں ہے   جو اللہ ، فرشتوں ، کتابوں اور رسولوں کا انکار کرتا ہے۔  اور اسی طرح انہوں نے فرمایا کہ  یہ وہ کفر ہے جو ملت سے نہیں نکالتا۔ سفیان نے ابن جریج کے واسطے سے عطاء سے نقل کیا ہے کہ یہ کفر ہے  مگر اصل کفر سے کم۔ اور ظلم ہے  مگر اصل ظلم سے کم اور فسق ہے مگر اصل فسق سے کم۔

کفر کی اقسام :

صحابہ کرام اور سلف صالحین  سے منقول تشریحات کی بنیاد پر  علمائے کرام نے کفر کی دو قسمیں کی ہیں ۔ کفر اصلی ،اور کفر نسبتی

«والكفر كفران» ‌‌أ- كُفرٌ يُخرِج من الملَّة، وهو (الكفر الأكبر). ‌‌ب- كفر لا يُخرج من الملة، وهو (الكفر الأصغر)، أو كفر (1) دون كفر (2)[18]

کفر دو طرح کے ہیں  : ایک وہ کفر جو ملت سے نکال دیتا ہے۔  اور وہ کفر اکبر ہے اور دوسرا وہ کفر ہے جوکہ ملت سے نہیں نکالتا اور وہ کفر اصغر ہے یا  بڑے سے چھوٹا کفر ہے۔

جن علمائے کرام نے شیعہ کے کفر کا فتوی  دیا ہے وہ فتوی اسی دوسرے درجے کے کفر  کا ہے۔ جس طرح نماز چھوڑ دینے سے انسان کافر ہوجاتا ہے۔  لیکن یہ کفر  نہ تو یہود و ہنود جیسا  کفر ہے اور نہ ہی یہ فتوی شیعہ کے ہر ہر فرد پر نافذ ہوگا۔ اور کسی بھی حال میں انہیں حقیقی کفر کے مقابلے میں مسلمان ہی سمجھا جائیگا۔  ماضی میں اس کی مثال ہمیں علامہ ابن تیمیہ کے عمل میں ملتی ہے جب انہوں نے شیعوں پر فتح حاصل کی   تو ان کے ساتھ بالکل کافروں والا معاملہ نہیں کیا۔ 

«كما حققه شيخ الإسلام في غزوه لهم، حيث نهى عن قتلهم وسبيهم بعد أن تمكن منهم، مع أنهم قتلوا المسلمين وسبوهم»[19]

کفر کا فتوی  حدود  وقصاص سے بڑا ہے:

اور عقلی طور پر ان علماء کا فتوی خروج عن الملۃ کا اس وجہ سے نہیں ہوسکتا کیونکہ یہ حدود و قصاص سے زیادہ اہم معاملہ ہے۔ ملت سے خروج کے بعد ان کا جان ومال  وآبرو ہر چیز مباح ہوجائے گی  جب کہ حدود و قصاص میں صرف جان مباح ہوتی ہے تو جب  حدود و قصاص شبہات سے زائل ہوجاتے ہیں تو خروج عن الملۃ  تو بدرجہ اولیٰ شبہ سے زائل ہوجائے گا۔  لہذا ہر ہر فرد شیعہ کو   ان تحریرات کی وجہ سے کافر قرار دینا جو کہ ان کے اکابر  نے لکھی  ہیں حالانکہ وہ ان عبارات کو تسلیم کرنے کے لئے بھی تیار نہیں۔ اصل کتاب کی سند کیا ہے؟ مصنف کی حالت کیا تھی؟    عام شیعہ تو  اس مصنف کے نام سے بھی واقف نہیں  اور آپ چاہیں کہ سب پر حکم  لگادیں۔  شیعہ حضرات میں اچھے خاصے عقلمند لوگ موجود ہیں جو  ان  شیعوں کی عمومی نالائقیوں سے بیزاری محسوس کرتے  ہیں مگر خاندان کی وجہ سے  شیعہ کہلاتے ہیں۔

اہلسنت والجماعت حکومتوں کا ماضی میں ان کے ساتھ تعامل وہی رہا ہے جو اہلسنت کے ساتھ رہا ہے یعنی اگر کوئی کسی طرح کی توہین کرتا ہوا پکڑا جائے اور اس پر گواہ مل جائے تو اسے اس جرم کی وہی سزا دی جاتی رہی ہے جو کہ ایک سنی کو  کسی توہین کرنے پر سزا ملتی ہے۔ اور یہی طریقہ آج بھی اصوب اور قابل عمل ہے۔

ایران اسرائیل جنگ میں  ایران کو سپورٹ کریں۔

جب یہ بات طے ہوگئی کہ کفر کے مقابلے میں  شیعہ حضرات کو اہلسنت مسلمان سمجھتے ہیں۔ تو کفر کے مقابلے میں ان کو سپورٹ کرنا اہلسنت کا فرض بنتا ہے۔ نیز یہ شیعہ حضرات کے لئے بھی ایک موقع ہے   کہ وہ اسرائیل کے خلاف فتح حاصل کرکے اہلسنت کے ایک قدیم شکوے کا جواب دیں جو اس جنگ سے پہلے تک اپنی حالت  پر برقرار رہا :

«وَاعْلَمُوا رحمكم الله أَن جَمِيع فرق الضَّلَالَة لم يجر الله على أَيْديهم خيرا وَلَا فتح بهم من بِلَاد الْكفْر قَوِيَّة وَلَا رفع لِلْإِسْلَامِ راية وَمَا زَالُوا يسعون فِي قلب نظام الْمُسلمين ويفرقون كلمة الْمُؤمنِينَ ويسلون السَّيْف على أهل الدّين ويسعون فِي الأَرْض مفسدين»[20]

صا حب ملل والنحل   کہتے ہیں کہ تمام گمراہ فرقے  نہ تو اللہ نے ان کے ہاتھوں میں خیر رکھی اور نہ ہی ان کے ہاتھوں کوئی کافروں کا طاقتور  شہر فتح ہوا اور نہ ہی انہوں نے کبھی اسلام کا  جھنڈا بلند کیا بلکہ ہمیشہ انہوں نے مسلمان ملکوں میں بغاوتیں کیں  ، مسلمانوں   کی جمعیت کو متفرق کیا اور دین داروں پر تلواریں اُٹھائیں۔ اور زمین میں فساد مچایا۔

 



[1] «متن العقيدة الطحاوية - شرح وتعليق الألباني» (ص56):

[2] «صحيح البخاري» (1/ 153 ت البغا): «مسند أحمد» (20/ 349 ط الرسالة): «سنن النسائي» (8/ 105):

[3] «سنن سعيد بن منصور - الفرائض إلى الجهاد - ت الأعظمي» (2/ 176):

[4] «سنن أبي داود» (4/ 277 ت الأرنؤوط):

[5] «سنن أبي داود» (4/ 278 ت الأرنؤوط):

[6]  «الجامع - معمر بن راشد» (11/ 17):

[7] «الجامع - معمر بن راشد» (11/ 168):

[8] «الجامع - معمر بن راشد» (11/ 210): «من حديث سفيان الثوري - ت عامر صبري» (ص71):

[9] «من حديث سفيان الثوري - ت عامر صبري» (ص143):

[10] «من حديث سفيان الثوري - ت عامر صبري» (ص144):

[11] «مسند الحميدي» (1/ 557):

[12] «الصلاة لأبي نعيم الفضل بن دكين» (ص70):

[13] «جزء أبي الجهم» (ص53):

[14] «مسند ابن الجعد» (ص28):

[15] «مصنف ابن أبي شيبة» (5/ 213 ت الحوت):

[16]  [المائدة: 44]

[17] «سلسلة الإيمان والكفر - المقدم» (3/ 2 بترقيم الشاملة آليا):

[18] «قضية التكفير بين أهل السنة وفرق الضلال في ضوء الكتاب والسنة» (ص40):

[19] «مناظرات ابن تيمية لأهل الملل والنحل» (ص65):

[20] «الفصل في الملل والأهواء والنحل» (4/ 171):

No comments:

Post a Comment