گر حفظ مراتب نکنی زندیقی
اسلام میں حفظ مراتب ایک اہم اصول ہے۔جس طرح فرض، واجب، مکروہ، حرام ایک لاٹھی سے نہیں ہانکے جاسکتے اسی طرح لوگوں کے مختلف طبقات برابر نہیں قرار دئیے جاسکتے۔ آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے رومی اور مجوسی جنگ میں رومیوں کی طرف داری فرما کر اسی درجہ بندی کو واضح فرمایا۔ اسی اصول کی بناء پر کفر کے خلاف جنگ میں اہلسنت والجماعت نے ہر دور میں شیعوں کو نا صرف سپورٹ کیا ہے بلکہ ان کے شانہ بشانہ لڑے ہیں۔ نور الدین زنگی، صلاح الدین ایوبی سے لےکر موجودہ ایران اسرائیل جنگ تک یہ ایک زمینی حقیقت ہے۔ اس کے برعکس شیعہ حضرات کی سنیوں کے خلاف جو تاریخ ہے عباسی خلیفہ کے شیعہ وزیر علقمی سے میر جعفر میر صادق تک اور آج کے بشار تک وہ بھی اپنی جگہ حقیقت ہے، جس کی وجہ سے ہمارے کچھ ساتھی اسرائیل اور ایران میں فرق نہیں سمجھ پارہے۔ انہیں یہ سمجھنا چاہیے کہ فرق مراتب ایک حقیقت ہے۔ ایک تو وہ مسلم کہلاتا ہے پھر اس خبیث ریاست کے مقابلے میں کھڑا ہے جو سارے کفر کا غرور ہے۔ لہذا اسرائیل کے خلاف ایران کا ساتھ دینا ہمارا فرض بھی ہے، تاریخ بھی ہے اور تہذیب بھی۔
ایران کا ساتھ کیوں دیں؟
حال کے امر اور وقت کی ضرورت کو سمجھنا تفقہ ہوتا ہے۔ ہماری صحابہ اور اہلبیت سے محبت اپنی جگہ پر ہے۔ اور جنگی حکمت عملی اپنی جگہ پر ہے۔ یہ جنگ پوری دنیا کو دو حصوں میں تقسیم کرنے والی ہے۔ جو ایران کی طرف داری کرنے سے کترائے گا اسنے اسرائیل کی جانب منتخب کر لی ہے۔ جنگوں میں وحدت کلمہ لازمی چیز ہے۔ نادانی اور ضد میں غلط صف کا انتخاب مت کریں۔
اہلسنت والجماعت کے جو لوگ ایران کو سپورٹ نہیں کر رہے وہ معذور ہیں
اگر اہلسنت والجماعت میں کچھ لوگوں کو ابھی تک ایران کے ظالمانہ رویے کی وجہ سے اسے سپورٹ کرنے کا حوصلہ نہیں کر پارہے تو وہیں ان شیعہ حضرات اور ان کے طرفداروں کو جو اہلسنت پر طنز و تشنیع کے تیر چلا رہے ہیں کو اپنے رویے پر غور کرنا چاہئے۔ ایران نے جو اپنے پڑوسی ممالک کو تکلیفیں پہنچائی ہیں اور اہل تشیع نے اہلسنت پر جو ظلم ڈھائے ہیں وہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں۔ اس تمام تاریخ کے باوجود سوائے اردن اور مصر کے تمام ممالک ایران کے ساتھ کھڑے ہیں۔ مشترکہ دشمن کا مقابلہ کرنے کے لئے اکیلے ایران کی استعداد پہلے دن ہی نظر آگئی تھی۔ اگر ایران کچھ دم خم دکھا رہا ہے تو ظرف والوں کے ساتھ کی وجہ سے ہے۔ لہذا ایران کی طرف داری میں اہلسنت پر طنز سے احتراز کریں۔ جنگیں تبھی جیتی جاتی ہیں جب آپس میں اتفاق ہو اور وحدت کلمہ ہو۔ ورنہ شیعے بھی جوتے کھائیں گے اور اہلسنت بھی۔ ایک دوسرے کے لحاظ کے ساتھ جینا سیکھیں۔ شکریہ
No comments:
Post a Comment