Wednesday, October 17, 2012

ملالہ پہ ملال اور وسعت اللہ کاکمال


بسم اللہ الرحمن الرحیم

لوگ کہتے ہیں کہ جب ایک طوائف فروخت ہوتی ہے تو صرف اس کا جسم فروخت ہوتاہے، مگر جب ایک صحافی کا قلم فروخت ہوتاہے تو پوری قوم بکتی ہے۔ لیکن بے چارے صحافی بھی کیا کریں ان کو بھی پیٹ لگاہوا ہے، اور ان کا ذریعہ معاش ہی قلم اور زبان ہے۔ اور ظاہری بات ہے ہر پیشے والے کی طرح یہ بھی اپنی خدمات اسی کو پیش کریں گے ، جو ان کو اچھامعاوضہ دے۔ وسعت اللہ خان ، کامران خان ، نجم سیٹھی ، مبشر لقمان ، مہربخاری سب صحافی ہیں۔ ان کو برا بھلا کہنے کا کیافائدہ ۔جس کا کھاتے ہیں اس کا گاتے ہیں۔ حمیتِ قومی،یا حقیقت پسندی سے ان کا کیا جائے ۔ صاحب پیسے دیتے تو صاحب کی نمک حلالی کرنا ان کافرض بنتاہے جو وہ نبھاتے ہیں۔ ان بے چاروں کی حیثیت تو اس سیٹھ کے ترجمان کی سی ہے جسے سیٹھ نے اپنی " بے تکی چھوڑی ہوئی گپ" کو صحیح ثابت کرنے کے لئے رکھا ہواتھا۔اب ایک دفعہ سیٹھ صاحب دوستوں میں بیٹھے بے پر کی اڑا رہے تھے کہ کہنے لگے اجی اصل نشانہ تو ہمارا وہ دیکھنے والا تھا جو ہم نے ایک ہر ن کو مارا اس کے گھٹنے میں لگا اور آنکھ سے نکلا۔ سارے لوگ کہنے لگے سفید جھوٹ، سفید جھوٹ۔ سیٹھ صاحب کو بھی خیال آیا کہ یار تھوڑی لمبی چھوٹ گئی ہے۔ فوراً اپنے وسعت اللہ کی طرف دیکھااور کہنے لگے ابے تجھے کس بات کے پیسے دیتاہوں حرام خور اب جلدی ان کو بتا کیا ہوا تھا بھلا، صاحب نے اس دن کی ڈائری کھولی اور فٹ شروع ہوگئے ۔ اصل میں جی آپ بات سمجھے نہیں ،  جب سیٹھ صاحب نے گو لی چلائی تو ہرن اپنے گھٹنے سے اپنی آنکھ پہ خارش کررہاتھا، جب گولی چلی تو گھٹنے کو پار کرتی ہوئی آنکھ سے گذر گئی ۔ اور بس واہ واہ کے نعرے گونجنے لگے۔

ارے بھئی جو تنخواہ دیتاہے اس کی نمک حلالی کرنی پڑتی ہے ۔ جیسے پاکستان میں حکومتی پارٹی کی ریلی سرکاری اسکولوں کے ٹیچروں کونکالنی پڑتی ہے۔ جس کا کھاتے ہیں اس کاگاتے ہیں۔ وہ دن کوکہے رات ہے تو کہنا پڑتاہے کہ مجھے تو تارے بالکل صاف نظرآرہے ہیں۔ اب بیچارے وسعت اللہ کا کیا قصور اس کوتو ڈائری لکھنی بھی ہے، اور پڑھنی بھی ہے، رات کو دن ، اور دن کورات ثابت کرناہے ۔صاحب بہادر نے جوکہہ دیا۔ خواہ  دونوں باتوں میں کوئی جوڑ ہویا نہ ہو۔ اب صاحب بہادر ہے کہ ہاں الو عقل مند ہوتاہے، تو بی بی سی آپ کو الو عقل مند ہی بتائے گی، اب یہ آپ کو سوچنا پڑے گا کہ کیا ان کہ کہنے سے الو عقل مند ہوگیا، بہرحال  ہمارے ہاں تو الو اُلُّو ہی ہوتاہے، خواہ بی بی سی میں ہو یاباہر۔ میں بی بی سی کی بات اس لئے کرتاہوں کہ ہمارے سارے الو  ہیڈلائن انہیں سے لیتے ہیں۔ کامران خان ، وغیرہ وغیرہ گننے کی ضرورت نہیں۔ ہر شاخ پہ الوبیٹھا ہے تم کتنے الواڑالوگے۔

اصل موضوع پہ آنے سے پہلے میں ملالہ اسٹوری کی کچھ خلاصہ عرض کرنا چاہوں گا ۔ یہ ملالہ اسٹوری ایک ایسے ٹائم میں بنائی گئی وِن اِٹ واز موسٹ نیڈڈ۔ ایک طرف جناب نبئ کریم ﷺ کی شان اقدس میں گستاخی سے سیکولر کہلانے والے بھی فداک ابی وامی کا نعرہ لگاتے ہوئے دار پہ چڑھنے کوتیار تھے تو دوسری طرف پاکستان شمالی وزیرستان میں آپریشن کرنے کو تیار نہیں تھا، تیسری طرف اوباما بہادر کا الیکشن بھی سر پہ تھا،اس کے علاوہ تمام سیاسی جماعتیں بھی توہینِ رسالت کی وجہ سے عوام میں اپنی ریپوٹیشن بچانے کے لئے ایک ہی زبان بول رہیں تھیں، ایسے میں سی آئی اے جو پہلے ہی ایک گیندسے ملٹی پلائی گیمیں کھیلنے میں گھاک ہے بھی ایک دفعہ سٹپٹا گئی ، انہیں ایک ایسے مہرے کی حاجت تھی جس سے مذہبی جماعتوں اور سیکولر جماعتوں میں ، مذہبی لوگوں اور غیرمذہبی لوگوں میں ہونے والی ہم آہنگی کو ختم کرسکیں ، شمالی وزیر ستان میں حملہ کرسکیں وغیرہ۔پھر رفع حاجت کے لئے اپنے ہاتھوں سے تیار کردہ پھکی کانام استعمال کرنے کا ارادہ کیا اور وہ تھی ٹی ٹی پی۔ ٹی ٹی پی کی حقیقت انشاء اللہ کسی اور وقت میں عرض کریں گے۔

ملالہ پہ حملہ بھی ویسے ہی غلط ہے جیسے کسی اور بچےپر،  دارالاسلام میں کسی فاسق تو درکنار کسی کافر کو بھی تکلیف پہنچانا جائز نہیں، اور ہمارے خیال میں یہ حملہ خود ایک ڈرامہ ہے جو امریکہ نے تیار کیاہے ، اور میڈیا نے اس میں رنگ بھرے ہیں مگر پاکستانی عوام اتنی بھی بھولی نہیں کہ ٹی ٹی پی کی وجہ سے وزیرستان پر حملے کا مطالبہ کرے۔ان  کوتو خود  وزیرستان کے محب وطن پاکستانیوں نے پاکستان کی عوام کو نقصان پہنچانے کے جرم میں وزیرستان سے جلاوطن کردیا، اگر اس واقعہ کی وجہ سے اپریشن ہونا چاہئے تو افغانستان میں نہ کہ وزیرستان میں۔

ملالہ پہ حملے کی مذمت جہاں پاکستانی میڈیا نے کی وہی سوشل نیٹ ورکس پر بھی تما م پاکستانیوں نے کی ۔ بی بی سی نے اس کو بڑا ہائی لائٹ کیا مگر سوشل میڈیا میں عوام کی اٹھنے والی آواز کا صرف آدھا حصہ دنیا کو دکھایا، حالانکہ پاکستانی سوشل میڈ یا پر عوام کی آواز صرف ملالہ پر حملہ کی مذمت نہیں بلکہ ساتھ ہی ڈرون حملو ں، وزیرستان ممکنہ آپریشن کے خلاف بھی مذمت تھی ۔اس صحافیانہ خیانت پر فیس بک اور سوشل میڈیا پر پاکستانی عوام کی آواز چیخ پڑی ، اور ہر وال پر میڈیا اور رحمن ملک کو گالیوں تک سے نوازا گیا کہ تم صرف ملالہ کو روتے ہو باقی پاکستان معصوم بچے جن کو روزانہ ڈرون حملے شہید کرتے ہیں ، کیا وہ انسان نہیں ، کیا وہ ماؤں کے لال نہیں ، کیا وہ بچے نہیں ، کیا وہ طلباء نہیں ،ان کے لئے آپ آواز کیوں نہیں اٹھاتے۔

پورے ڈیڑھ ہفتے کی ایسی  مسلسل پوسٹیں نہ تو بیچارے بی بی سی کے نمائندے ذکرکرسکتے تھے ، نہ پاکستانی میڈیا والے کیونکہ انکل سام ناراض ہوجاتے اور اگر وہ ناراض ہوجاتے تو ان بیچاروں کے پیٹ کا کیابنتا، آخر سیٹھ صاحب کی طرح انکل نے بھی وسعت اللہ صاحب کو وضاحت کا حکم دیا اور انہوں نے اپنے قلم سےایک ملالہ ہی کیوں ؟کے نام سے زمیں اور آسمان کو ملادیا واہ جی واہ وسعت اللہ صاحب کمال کردیا۔انہوں نے اپنے اس کالم میں کہا کہ جیسے قومیں صرف اپنے قومی ہیرو کے لئے سوگ مناتی ہیں ہم بھی صرف ملالہ کا سوگ مناتے ہیں۔ 

لیکن چونکہ ملالہ کو اسلامی شعائر سے چڑہےاور اس کے  آئیڈیل اوباما ، اور باچاخان ہیں جن میں سے پہلامسلمانوں کا قاتل اور دوسرا پاکستان کا غدارہے ، تو وہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کی عوام کی کبھی بھی قومی ہیرو نہیں کہلاسکتی ، ہا ں انگریز کے دوٹکے کے ملازم یہ بات کہیں تو ان کو تو ہم پہلے ہی معذور سمجھتے ہیں۔اس طرح تشبیہ دینے کو منطق کی اصطلاح میں قیاس کہتے ہیں، اور قیاس کےصحیح ہونے کے کچھ قواعد ہوتے ہیں اگران قواعد کا لحاظ نہ کیا جا ئے تو وہ قیاس غلط ہوتاہے۔اصطلاحی الفاظ کی بجائے میں سادہ قسم کی ایک مثال پیش کرتا ہوں آپ اس سے اس قیا س کو سمجھیں ایک چوہے اور ہاتھی کی دوستی ہوگئی چوہے نے ہاتھی سے اس کی عمر پوچھی ہاتھی نے کہا دو سال پھرہاتھی نے چوہے سے اس کی عمر پوچھی چونکہ عمر اس کی بھی دوسال تھی اور وسعت اللہ صاحب کی قیاس کے مطابق اس کا قد کاٹھ بھی ہاتھی جتنا ہونا چاہئے تھاتو چوہا بڑا شرمندا ہوا  اور جواب دیا یار عمر تو میری بھی دوسال ہے مگر میں تھوڑا بیمار شیمار رہتاہوں۔

خیر میں نے جیسے شروع میں عرض کیا کہ ہم سلسلے میں ان بے چاروں کو معذور سمجھتے ہیں بے چارے انگریز کے نوکر ہیں اور ظاہر ہے جو صاب (اوباما)کو آئیڈیل مانے وہ ان کے لئے قومی ہیرو ہونا ہی چاہئے۔

مگر سارے انگریز کے غلام اور دوٹکے کے لئے اس کی طرفداری میں بھونکنے والا میڈیا اور ان کاآقا سن لے تم لاکھ آنکھیں بند کرو مگر حقیقت یہ ہےکہ 

پاکستان کا مطلب لاالہ الااللہ

پاکستان کا قانون اور آئین  قرآن اور سنت(اگرچہ آج ان کالے انگریز وں کی وجہ سے اس پر عمل نہیں ہورہا مگران شاءاللہ ایک دن ہوگا)

اور ہماری جانیں جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ناموس پر قربان وفدا ہونے کے لئے تیار ہیںاور ہمارا قومی ہیرو صرف وہ ہی بن سکتاہے جو ہمارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم اور ہمارے ملک کاوفادار ہونہ کرشرمین یاملالہ۔


2 comments:

  1. Thum ak inthaii Ghaleez insan ho... ak tho thum ney dharii chor ke islam ka Thekadar samajthey ho... or kissi ko Ghadar kehtey ho... Ghdar tho thum jaise Halwa Khor mulla hain... jo apney bivi se halwa ke liee zina jayaz qarar detey hain... or han Ghadar thumari poori nasal ho giii kiunkey thum khod Ghadar ki olad ho... thumain sharam nahe athii ke itni bari dharii chor ke ak 14 sala bachi k khilaf propagandey kartey ho....

    ReplyDelete
  2. Mulla sb khuda ke lieee ub hamainn mazeed andheroo main na rako... or zaban sanbhal k bath kia karoo... Bacha Khan ke barey main bath karney se pheley wazo kia karooo... q k thumarii na pichlo nasloon main se iss thara ka insan ayya tha or na ainda walii nasloon main ha sakta jo itna pak daman or mohib-e- watan ho... kam az kam wo islam ko bechney ki bath tho nahe karta tha... thum log tho islam bi beech detey ho....

    ReplyDelete