پاکستانی اور انٹرنیشنل سیکولرمیڈیامیں ایک طرف تو پاکستان
کو کئی لخت کرنے کی تحریک چل رہی ہے تو دوسری طرف پاکستان کو سیکولر بنانے کے لئے
محنت وتگ ودوجاری ہے ۔دونوں تحریکوں
کی کامیابی کے لئے پاکستان کی وجہ قیام پرپردہ ڈالنا ضروری ہےاسی لئے میڈیا پاکستان کی اصل تاریخ کو مسخ کرکے ایک نئی
تاریخ دینے پرتلاہوا ہے۔70سال پہلے کی تاریخ کوروزانہ
کوئی جدیدسیکولر مفکر اپنے صاف ستھرے خیالی پلاؤ کی شکل میں پیش کرتاہے ،جس پر
سیکولر میڈیا خصوصاً بی بی سی جیسے ادارے عش
عش کراٹھتے ہیں اور ہزار بار واری صدقے ہوتی ہوئے بڑی فخریہ انداز میں اپنے قارئین
کے سامنے پیش کرتے ہیں کہ دیکھئے ان مصنف نے اصل تاریخ پیش کی پہلے کی سب کتابیں
تو ساری آئی ایس آئی کی تحریف کردہ ہیں(صرف اس بات کا بیچارے مولوی کوالزام نہیں
دیتے کہ کہیں یہ ثابت نہ ہوجائے کہ پاکستان بنانے میں مولوی کااصل کردار تھا) ہم
اس مضمون میں اس بات پر ذرا کھلے ذہن سے سوچتے ہیں کہ کیا1947ء کی صورتحال میں عملی طور پر سیکولر پاکستان کے نعرے پر پاکستان بن سکتا تھا۔
1947ء سے پہلے کی صورتحال
پر غور کرنے سے پہلے یہ جان لینا بہت ضروری ہےکہ اس وقت عوام کوعلماءپر مکمل
اعتماد تھا۔درست اور غلط کے فیصلےکا مکمل
اختیار محلے کی مسجد کے امام صاحب کو ہوتاتھااور انکی رائے حرف ِآخر سمجھی جاتی
تھی۔ اس وقت
تک کسی طرح کا میڈیامسلمانوں کےپاس نہیں تھا،جیو،دنیا،سماء اور ایسے درجن بھر چینل
تو پیدا ہی آج ہوئے ہیں،پی ٹی وی یا
ریڈیوپاکستان تک کابھی وجود نہیں ،یہانتک کہ قائداعظم مرحوم نے اپناپہلاقوم سے
خطاب بھی ریڈیوہندوستان سے کیاتھاجس کے ٹرانسلیٹر کے بیان کے مطابق اس کی انتظامیہ
اتنی متعصب تھی کے قائداعظم مرحوم کا تقریر کے آخرمیں پاکستان زندہ باد کا نعرہ
نشرنہیں کیا تھاترجمان نے خودہی اندازے سے نعرہ لگادیا۔
اب آپ اندازہ لگائیں کے کیاایسے میڈیاسے پاکستان بنانے
کےلئے مسلمانوں کی ذہن سازی کرنے کی کوئی امیدہے۔اس وقت کاپرنٹ میڈیا بھی ہندوکے
قبضے میں تھا،اگر پرنٹ میڈیا میں پاکستان کی وکالت کوئی کررہاتھا ،تو وہ بھی علماء تھے ،کہیں مولانا محمدعلی جوہرہمدرد
اور کامریڈ کے نام سےروزنامےاور ہفت روزے نکال رہے تھے تو کہیں مولاناشبیر احمد عثمانی
اور دیگر ماہنامے نکال رہے تھے۔لیکن اگر سارا پرنٹ میڈیا بھی اس وقت پاکستان کی
حمایت کرتا تو بھی اس کا اثر صرف معدودے چند لوگوں پرہی ہوسکتاتھا، علیگڑھ کے
فضلاء کوتوبہت بڑی مسلمانوں کی تعداد مسلمان تک سمجھنے کے لئے تیار نہیں تھی
یہانتک کے عوام انہیں کالا انگریز اور ہندو سے بدتر سمجھتے تھے ان کی ماننے کوکہاں تیار ہوتے ۔ اس وقت کے عام آدمی
کا سارا میڈیا اس کی مسجد کے مولوی صاحب تھے ، یہانتک کہ زمیں کوپانی دینے کے لئے
اپنی باری کا وقت تک مولوی صاحب سے معلوم کیا جاتاتھا۔ اور چونکہ ایک عام مولوی
صاحب کسی طرح علیگڑھ کے فاضل کو اہمیت دینے کے لئے تیار نہیں تھے، نتیجتاًعوام بھی
مسلم لیگ کی حمایت کو امادہ نہ تھے۔یہی وجہ ہے علماءکی تائید
کے بغیر پاکستان بنناناممکن تھا۔اور یہی وجہ تھی کہ علماء کی تائیدسے پہلے 1936کے الیکشن میں مسلم
لیگ کو مسلم اکثریت کے علاقوں میں بھی شکستِ فاش کاسامنا کرنا پڑا تھا۔
1936ء میں جب چھ صوبوں میں کانگریس نے اپنی وزارتیں قائم کیں
اور یہ بات واضح ہوگئی کے علماء کی تائید کے بغیر پاکستان کا حصول ناممکن ہے ایسے
وقت میں مولانا اشرف علی تھانوی رحمۃاللہ علیہ اور مولانا شبیراحمدعثمانی رحمۃ
اللہ علیہ جیسے اکابرعلماء کی تائید مسلم لیگ کے لئےاور پاکستان کے قیام کے لئے امید کی کرن ثابت ہوئی اور حضرت مولانا اشرف علی
تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کے تائیدی بیان کو مختلف مقامات پر مسلم لیگ کے جلسوں میں
پڑھ کرسنایا گیا۔
حضرت مولانااشرف علی تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کا وہ پیغام جو
دسمبر 1938کے پٹنہ کے مسلم لیگ کے جلسے میں پڑھ کر سنایا گیا کا متن
درج ِذیل ہے۔
"اس وقت
مسلمانوں کو اپنی جداگانہ تنظیم کی ضرورت ہے، کیونکہ عقلاًونقلاً یہ بات
ثابت ہے کہ جو قومیں اپنی جداگانہ تنظیم نہیں رکھتیں وہ دوسری قوموں میں مدغم
ومنجذب ہوکر کالعدم ہوجاتی ہیں۔باخبرحلقے اس بات سے بخوبی آگاہ ہیں کہ مسلمانانِ
ہند اس وقت جس دور سے گذر رہے ہیں،وہ ان کے لئے مشکلات اورپریشانیوں کا دور ہے۔اس
لئے مسلمانوں کو مسلم لیگ کی تنظیم ِنو میں شریک ہوجانا چاہئےتاکہ مستقبل میں
مسلمانوں کی تہذیب ومعاشرت،زبان وتعلیم وغیرہ کو محفوظ کیاجاسکے۔"
مسلم ایک قوم ہی وہ نعرہ ہے جس کی وجہ سے پہلی دفعہ مختلف
رنگ،خون اور نسل کے لوگ پاکستان کے پرچم تلے جمع ہوئے ،پنجابی،پٹھان ، بلوچ،سندھی
،تھری،سرائیکی ،بنگالی،بہاری،ہزاروی،کشمیری، افغانی ، راجپوت، بروہی ، فارسی،سب
اپنی زبان اور تہذیب کو ٹھوکر مار کرصرف مسلم قوم اور مسلم تہذیب ،اور مسلم شناخت
کے لئے یکجاہوئے۔اور یہی وہ نعرہ ہے جس پر پاکستان کی بقاء منحصرہے۔اگر آج
پاکستان میں ہر طرف انارکی پھیلی ہے تو اس کی وجہ اس بنیاد کو پس پشت ڈالناہے۔
قوم اور ملت کی اگرچہ انسائیکلوپیڈیا برٹانیکا میں کوئی بھی
تعریف لکھی ہومگر مختلف قومیں جو پاکستان کے نام پر جمع ہوئیں اس کی وجہ صرف اور
صرف مسلمان ہونا تھا۔آج بہت سے سیکولر فلسفی اسلام کو بنیاد سے نکالنے کے لئے قوم
اور ملت میں فرق بیان کرکے پاکستان بننے کی وجہ اردو زبان ثابت کرنے پر تلے ہوئے
ہیں ۔ یہ صراحتاً پاکستان توڑنے کی سازش ہے ،سندھی ،پنجابی ،پٹھان بلوچی ،سرائیکی
،بنگالی صرف اردو زبان کے لئے کبھی یکجا
نہیں ہوسکتے تھے اور نہ ہی آج جمع رہ سکتے ہیں۔
آج میڈیا بڑی معصومیت سے کہہ دیتا ہے کہ قائداعظم کا خواب
سیکولر پاکستان تھا۔ اگر سیکولر اسٹیٹ ہی بنانی تھی تو سیکولر انڈیا سے الگ ہونے
کی کیا ضرورت تھی۔سیکولر پاکستان کے نعرے
پر کبھی علماء ساتھ نہ دیتے ۔ نہ کبھی جمیعت علماء اسلام پاکستان کا قیام ہو تا۔(جس
نے پورے ہندوستان کے مسلمانوں کو پاکستان کا شعور دیا۔،سرحد،بلوچستان پنجاب ،سندھ،
میں گھر گھر پاکستان کی حمایت حاصل کی ) علامہ شبیر احمد عثمانی رحمۃ اللہ علیہ نے
قائداعظم سے اسلامی نظام کے نفاذ کا کئی بار وعدے اور یقین دہانیاں حاصل کیں تھیں
تبھی وہ پاکستان کی حمایت کے لئے تیار ہوئے تھے ورنہ انکے ہمعصر کانگریسی علماء ان
کو ڈراتے تھے کہ یہ لوگ اسلامی نظام نافذ نہیں کریں گے۔
اور قائداعظم مرحوم نے بھی اپناوعدہ سچا ثابت کرنے کی نشانی
اور علامت کے طور پر مشرقی اور مغربی پاکستان دونوں جگہ پہلی دفعہ پرچم کشائی کی
تقریب میں پرچم کشائی علماء سے کروائی ۔مشرقی پاکستان میں مولانا ظفر احمد تھانوی اور
مغربی پاکستانی میں مولانا شبیر احمد عثمانی مرحوم نے پرچم کشائی کی ۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ اسلام کے نام پرہی پاکستان پہلی بار
قائم ہوا ، اور اسلام کےنام پر ہی اس
کی بقاء ہے ۔ سیکولریت کے نعرے پر نہ ہی
پاکستان بن سکتااور نہ ہی سیکولر پاکستان بچ سکتاہے۔
(الحمد للہ بندہ کو دوران ِ طالبعلمی استاد محترم
مفتی اعظم پاکستان حضرت مفتی رفیع عثمانی صاحب مدظلہم کی پاکستان کا آئین بنانے میں علماء کا کردار کے
متعلق یادداشتیں جمع کرنے کا شرف حاصل ہوا، اس دوران پاکستان کی تاریخ پر وسیع
مطالعے کا موقع ملا ، جو ان شاء اللہ
بحوالہ عنقریب آپ کی خدمت میں پیش کرنے کا ارادہ ہے۔)
Jazak Allah bhai Noor Akram
ReplyDelete