ہماری اسلامی مملکت ِخداداد اسلامی جمہوریہ پاکستان میں خصوصی طور پر کچھ غیر ملکی ادارے جیسے بی بی سی لندن اور وائس آف آمریکہ اور عمومی طور پرموساد ،را اور سی آئی اے کے ایجنٹ جو ہمارے ملکی میڈیا میں گھسے ہوئے ہیں ،اور ان میں سے بعض کے متعلق ہماری خفیہ ایجنسیوں نے وضاحت بھی کی ہے کہ یہ فلاں ملک کی ایجنسی کے نمائندے ہیں ،پاکستان میں اسلامی ذہن اور اسلامی نظریات کے شدید مخالف ہیں اور وقتا فوقتااسلام اور مسلم رہنماؤں کو لتاڑتے رہتے ہیں ،وہ عمومی طور پر یہ پروپیگنڈہ کرنے کی کو شش میں لگے رہتے ہیں کہ مسلم رہنماؤں یا ملاؤں نے بھی وہی تاریک زمانے کے پوپ والاماحول پیداکر رکھاہے ،سائنس اور تحقیق کے یہ دشمن ہیں ،اور یہی ہیں جن کی وجہ سے ہم ترقی کی راہ سے پیچھے رہ گئے ہیں ،ایساہی ایک صاحب نے 2010/11/10 کے بی بی سی اردوکے ایک بلاگ میں توہین رسالت کی ایک مجرمہ کی جان بچانے کے لئے لکھاہے،میں نے بعینہ یہ بلاگ یہاں پیسٹ کر دیاہے اوراس کی لنک بھی لگادی ہے۔اس کی حقیقت کتنی ہے ،اس پربعد میں غور کرتے ہیں پہلے بلاگ مطالعہ کریں۔
’آسیہ بی بی کو ابھی صدارتی معافی ملی بھی نہیں کہ مذہبی منافرت کے دلدادا افراد نے ملک میں دھمکیوں کابازار گرم کردیا ہے
کافیچندبرس پہلے کی بات ہے میں نے جنرل ضیاءالحق کے حمایتی ایک مولوی سے پوچھا کہ آپ حضراتذوالفقار علی بھٹو کی جان کے دشمن کیوں بنے ہوئے ہیں؟ کیوں ایککمزور مقدمے کی بنیاد پر ان کو پھانسیچڑھانے کے لیے اچھل کود کررہے ہیں؟تو ان کا جواب بڑاہی سادہ تھا۔ موصوف نے فرمایہ وہ معاشرے میں فحاشی،عریانیت اور بے راہ روی کو فروغ دے رہے ہیں اور اسلامی مملکت میں غیراسلامی رجحانات پیدا کررہے ہیں۔
مجھے جواب پر بڑی حیرت ہوئی۔ پھر سوال کیا، ‘لیکن انہوں نے شراب پر پابندی لگائی،احمدیوں کو دائرہ اسلام سے خارج کرایا اور ہندوستان سے ایک ہزار برس تک لڑنے کا نعرہ لگایا تب بھی آپ کو لگتا ہے وہ غیر اسلامی رجحانات پیدہ کررہے ہیں؟مولوی کو بڑا تاؤ آیا فورا فرمایا، ‘میاں اللہ اور ان کے رسول نے جو احکامات دیئے ہیں ان سے انحراف کی سزا موت ہے۔میں ڈر گیا اور چپ سادھ لی۔
جنرل ضیاء کے زمانے سےپہلے دلیل اور بحث میں اللہ اور ان کے رسول کے احکامات کو ڈھال بنا کر عام طور پر استعمال نہیں کیا جاتاتھا۔ لیکن جنرل صاحب کےبل بوتے پر، عقل اور علم کا خون پی کر پروان چڑھنے والےنیم حکیموں کی گُڈی ایسی چڑھی ہے کہ اب آپ نے دلیل، منطق، فلسفے اور سائنس کی بات زبان پر لائی نہیں کہ فتوابازوں کےتن بدن میں کھلبلی مچ جاتی ہے اور وہ اسلام دشمنی اور رسول دشمنی کےنعرے لگاتے آپ کے پیچھے پڑجاتے ہیں۔ جنرل ضیاء کے زمانے سے پہلے دلیل اور بحث میں اللہ اور ان کے رسول کے احکامات کو ڈھال بنا کر عام طور پر استعمال نہیں کیا جاتا تھا۔
چاربچوں کی ماں آسیہ بی بی کو ابھی صدارتی معافی ملی بھی نہیں کہ مذہبی منافرت کے دلدادہ افراد نے ملک میں دھمکیوں کا بازار گرم کردیا ہے۔ کوئی بولے تو ٹھک سے اسلام اور دین دشمن قرار۔
پاکستان میں جو لوگ مسیحیوں یا دوسری اقلیتوں کے افراد کو جانتے ہیں ان کو اندازہ ہوگا کہ وہ بے چارےکس قدر سہمے ہوئے ہوتے ہیں، کیا ان کو اپنی جان گنوانی ہوگی کہ وہ مسلمانوں کے پیغمبر کے خلاف زبان درازی کریں؟
آپ کہیں کہ ملک میں شدت پسندی، قتل و غارت گری، مذہبی اور لسانی فسادات نےمعاشرے کو انتہائی پژمردہ کردیا ہے ایسے میں کچھ نہ کچھ ثقافتی اور فنون لطیفہ کی سرگرمیاں جاری رہنی چاہئیں تو سڑکوں پر اورمیڈیا میں مصروف جہادی بریگیڈ‘ اللہ اور رسول کے احکامات سے انحراف کی تلوار لیکر میدان میں کودپڑتے ہیں۔ کہتے ہیں آپ بے حیائی اور عریانیت پھیلا رہے ہیں اور یہ مملکت خداداد میں ہونے نہیں دیا جائے گا۔حال میں ایک بڑے اخبار کے ’توپ صحافی‘ کا ‘عریانیت اور فحاشی‘ کے خلاف کالم پڑھا جو پڑھ کرکچھ ایسے ہی خیالات اور جذبات ابھرے جیسے پاکستان کےاخبارات میں آئے دن پاکستانی فلموں میں عریانیت کے موضوع پر چھپنے والے ان لاتعداد مضامین سے ابھرتے ہیں جن میں پاکستانی ہیروئنوں کی بڑی بڑی تصاویرچھاپی جاتی ہیں اور ان تصاویر میں ہیروئنیں کے جسم کے متعدد حصوں کو سیاہ دھاریاں لگا دی جاتی ہیں۔کبھی کبھی ایسالگتا ہے کہ پاکستان میں اسلام اور دین کے احکامات کے خودساختہ ٹھیکیدار،لوگوں کےذہنوں میں ابھرنے والے تمام خیالات کو بھی اسی طرح سیاہ دھاریاں لگا دینا چاہتے ہیں۔" تبصرہ
آپ نے موصوف سومرو صاحب کاکالم پڑھا جنہوں نے اپنے انگریز مالک کی نمک خواری کاخوب حق ادا کیاہے ، اور صاحب کے مخالفین کاخوب تیاپانچہ کیا ہے،ایک توہین رسالت کی مجرمہ کے لئے توسومرو صاحب اور ہیومن رائیٹس کی تنظیمیں اتناچیخے۔ کاش !وزیرستان اورافغانستان میں روزانہ شہیدہونے والے بے قصورمسلمانوں کے لئے بھی انسان ہونے کے ناطے دولفظ کہہ دیتے ،فلسطین چیچنیااورکشمیر میں شہیدہونے والے ہزاروں کابھی کوئی تذکرہ ہوجاتایاامریکہ ،اسرائیل،بھارت کومعصوم انسانوں کے قتل عام سے ہی روک دیتے ،ان کاانکو کبھی خیال نہیں آئے گا۔چلو اور نہیں تو ایک مسلم بے گناہ خاتون ڈاکٹر عافیہ کابھی ساتھ تذکرہ کرلیتے!مگر حیف صد حیف ! ہم یہا ں موصوف کی باتوں کانمبروار تجزیہ کریں گےاور اس کی حقیقت دیکھنے کی کوشش کریں گے۔
سب سے پہلے سومرو صاحب نے بھٹو صاحب کی مظلومیت کاواقعہ ذکر کرکے انکے مداحوں کے قلوب میں اپنے لئے نرم گوشہ بنانے کی کو شش کی ہے ۔ اور دوسری طرف اسی واقعہ کو ایشو بنا کر جنرل ضیاءالحق کے ساتھ مولویوں کو گھسیٹ کر اپناکام آسان کرنے کی کوشش کی ہے ۔سیاست کی آڑمیں ہونے والے واقعہ کو اسلامی رنگ دے کراسلام سے برگشتہ کرنے کی مہم چلانا انگریز کاہی سکھایاہو گر ہے۔ایسے موقعوں پر ایسے پرانے واقعات پہلے انگریز کو الہام ہوتے تھے اب ان کے نمک خواروں کو ہوجاتے ہیں۔
کسی کے ایک کام غلط کرنے سے اس کے اچھے کام برے نہیں ہوجاتے ،ویسے بھی اسلامی ذہن کی نشو ونمااور آبیاری کاکام اگرچہ جنرل ضیاءمرحوم کے زمانے میں خوب ہو امگر اس کی ابتداء بھٹومرحوم کے ہی زمانے میں ہوئے ،۷۳ء کے دستور کی شکل میں انہوں نےہی اسلامی نظریا ت کو ایک مستحکم پلیٹ فارم مہیاکیا، پوری دنیاکے اسلامی ممالک کو ایک متحد طاقت بنانے کی کوشش کی ،اور اسلامی بم بنانے کی ابتداء کی یہ انکی وہ خوبیاں ہے جن کی سزامیں آپکے آقا ان سے ناراض ہوئے اور آپ حضرات بھی ان باتوں کانام لیتے ہوئے ڈرتے ہیں۔
سومرو صاحب کی اگلی بات ملاحظہ کریں
فرماتے ہیں،
"جنرل ضیاء کے زمانے سےپہلے دلیل اور بحث میں اللہ اور ان کے رسول کے احکامات کو ڈھال بنا کر عام طور پر استعمال نہیں کیا جاتاتھا۔ لیکن جنرل صاحب کےبل بوتے پر، عقل اور علم کا خون پی کر پروان چڑھنے والےنیم حکیموں کی گُڈی ایسی چڑھی ہے کہ اب آپ نے دلیل، منطق، فلسفے اور سائنس کی بات زبان پر لائی نہیں کہ فتوابازوں کےتن بدن میں کھلبلی مچ جاتی ہے اور وہ اسلام دشمنی اور رسول دشمنی کےنعرے لگاتے آپ کے پیچھے پڑجاتے ہیں۔جنرل ضیاء کے زمانے سے پہلے دلیل اور بحث میں اللہ اور ان کے رسول کے احکامات کو ڈھال بنا کر عام طور پر استعمال نہیں کیا جاتا تھا۔"
اس پیر اگراف میں موصوف نے ایک تو وہی ضیاءمرحوم کے نام کی دشمنی کافائدہ اٹھاتے ہوئے مولویوں سے نفرت پیداکرنےکی کوشش کی ہے، حالانکہ اللہ اور رسول کے احکامات کے حجت ہونے کو۷۳ء کے دستورمیں جناب ذوالفقار علی بھٹو مرحوم نے حجت قرار دیاتھااور اس وقت سے یہ الفاظ پاکستان میں قانونی دلیل بنے ہیں ۔ہمارے دستور کے ابتدائی الفاظ ہی ایسے ہیں جن سے اوریجنل انگریز بھی اور کالے انگریز بھی ڈرتے ہیں اور خوارکھاتے ہیں اور یہ بھٹو صاحب کے لکھوائے ہوئے ہیں ان کامفہوم عر ض کر رہاہوں ۔
حاکمیت صرف اللہ تعالی کی ہے اوروہ انسان اس کانائب بن کر حکمرانی کرسکتاہے۔اور مزید اس میں اس بات کی تصریح ہے کے ملک کاکوئی قانون قرآن وسنت کے خلاف نہیں بنے گا۔یہ ہے وہ بات جس نے قرآن وسنت کو پاکستان میں قانونی حیثیت دی ۔اور یہ جناب بھٹو صاحب کا امت پر احسان ہے۔
دوسر اسومروصاحب نےاس پیراگراف میں وہی رٹا رٹایاسبق دہرایا کہ یہ مولوی پوپ کی طرح علم وہنر کادشمن ہے اس بات کاتفصیلی جائزہ تو ہم عیسائیت اور اسلام میں تقابل کے دوران لیں گے۔یہاں ایک خارجی حقیقت کو آشکارا کردوں کہ ان صاحب نے منطق فلسفہ اور سائنس کا نام تو لیاہے مگر ان سے اگر ان علوم کی الف ،ب کے متعلق پوچھیں تو کچھ نہ بتاسکیں گے ،جبکہ فلسفۂ قدیم اورمنطق عمومی طور پر ہر مدرسہ میں نہ صرف پڑھایاجاتاہے بلکہ ہر باقاعدہ مولوی اس کاماہرہوتاہے بعض مدارس میں جدید فلسفہ کی تعلیم بھی شروع ہوگئی ہے،سائنس اگرچہ مولوی صرف میٹرک تک کی پڑتے ہیں مگرمدارس میں میٹرک کاامتحان نقل سے نہیں ہوتا۔اورایٹم بم کومولوی اسلامی بم سمجھتے ہیں اور ڈاکٹرعبدالقدیرخان کو محسن پاکستان اور محسن اسلام خیال کر تے ہیں اور سائنس اور دیگر علوم کے پڑھنے پڑھانے کو فرض کفایہ سمجھتے ہیں ،یعنی اگر کوئی بھی نہ پڑھے تو پوری امت گناہ گار ہوگی۔البتہ انگریز کی غلامی اور تقلید کو ضرور کفر سمجھتے ہیں ۔
ہاں آپ کے خیال میں تو آقاکی تابعداری ہی ساری منطق ،فلسفہ اور سائنس ہے۔توتو مسئلہ بنے ہی گا۔
اس کے بعد وہ غلط الزامات کو آڑ بناکر توہین رسالت کی سزاختم کرنے کی حمایت کرتے ہیں ،انکو یہ بات سمجھ میں نہیں آرہی کہ توھین رسالت کے قانون کی وجہ سے بے گناہ لوگوں کی جان بچ جاتی ہے اگر یہ قانون ختم ہوگیاتوچوکوں اور چوراہوں پر ایسے لوگوں کو قتل کیاجائے گاجس میں بے گناہ کو بھی رگڑا لگ سکتاہے۔
جہاں تک معاملہ اس خاتون کاہے یہ تو مسلسل اعتراف کئے جارہی تھی یہاں تک کہ گورنرپنجاب جیسے لوگوں نے اسے نیاسبق پڑھایا ،اور سہمی ہوئی اقلیتوں کی وضاحت بھی اسی اعتراف سے ہوجاتی ہے ،جب اتنے بڑے ادارے جن میں آپ جیسے قلم کاربیٹھے ہیں اور دنیاکی سپر پاور ان کی حمایتی ہے تو ان کو سہمنے کی کیاضرورت ہے۔ ایسے تبصروں کے ذریعے آپ کے آقا محب وطن اقلیتوں کواپنے مفاد میں استعمال کرنے کے لئے ذہن سازی کاکام لیتے ہیں اور پھران میں اپنے جاسوس پیداکرنے کی راہ ہموار کر تے ہیں۔
سومرو صاحب نے دوسرے موضوع پرلکھتے ہوئے اپنے اصل دردکی شکایت ضروری سمجھی ۔فرماتے ہیں :
"آپ کہیں کہ ملک میں شدت پسندی، قتل و غارت گری، مذہبی اور لسانی فسادات نےمعاشرے کو انتہائی پژمردہ کردیا ہے ایسے میں کچھ نہ کچھ ثقافتی اور فنون لطیفہ کی سرگرمیاں جاری رہنی چاہئیں تو سڑکوں پر اورمیڈیا میں مصروف جہادی بریگیڈ‘ اللہ اور رسول کے احکامات سے انحراف کی تلوار لیکر میدان میں کودپڑتے ہیں۔ کہتے ہیں آپ بے حیائی اور عریانیت پھیلا رہے ہیں اور یہ مملکت خداداد میں ہونے نہیں دیا جائے گا۔"
سومرو صاحب یہاں میراتھن ریس پرہونے والے احتجاج کی طرف اشارہ کررہے ہیں ،دیکھئے وہ غم نہیں بھولتا، پرویزصاحب نے کیاکیافنون لطیفہ دیکھانے کاارادہ کیا تھا یہ کام اگرمسلسل جاری رہتاتوروز کسی نہ کسی سڑک پربھاگتے فنون ِ لطیفہ کے نمونے نظر آتے ،مگر افسوس یہ مولوی !
یہ اس کاایک نمونہ تھاکہ کس طرح انگریز کے یہ ایجنٹ اسلام اور مسلمان راہنماؤں کو پوپ کی علم دشمنی کے تناظر میں پیش کر تے ہیں ، جسکا مقصد ایک مسلمان کو علماء سے برگشتہ کرنا اور عوام وعلماء کے درمیان فاصلے پیداکرناہے تاکہ لوگوں کو اسلامی تہذیب وتمدن سے دورکیا جاسکے اور آسانی سے دجالی تہذیب کے قیدی بنایاجاسکے ۔
No comments:
Post a Comment