Saturday, October 25, 2014

Malala and owl: symbols of knowledge and education



ملالہ اور اُلُّو
یہی درس دیتا ہے ہمیں ہر شام کا سورج! مغرب کی طرف جاؤ گے تو ڈوب جاؤ گے


یہ تصویر کسی آرٹسٹ نے نوبل انعام حاصل کرنے پر ملالہ اور ان کے شریک کیلاش کے لئے بنائی ہے۔ اس تصویر کو اگرغور سے دیکھیں تو محسوس ہوتاہے کہ یہ اُلو کی تصویر ہے، اور آنکھوں کی جگہ ملالہ اور کیلاش کی تصویر ہے ۔  ملالہ کو نوبل انعام تعلیم کے لئے کا م کرنے پر دیاگیا۔  ملالہ کو گویا مغرب نے تعلیم کا علامتی نشان قرار دیا ہے
اس سے پہلے یہ اعزاز مغرب میں" اُلُّو "کو حاصل تھا۔  ٹی وی ٹروپس نامی سائیٹ میں الو کے تعارف میں یہ لکھاگیاہے ۔
There is a long-running tradition of using owls as a symbol of knowledge. This might be because their eyes resemble Nerd Glasses, or because they are silent and mysterious. Most likely, though, it's because of their importance in various ancient cultures, especially the Greeks, where the owl was the bird of Athena, the goddess of, among other things, wisdom. Ironically, Athena's bird was the owl not because the Greeks themselves saw owls as wise, but because Athena's patron city Athens (and its surrounding environs) swarmed with wild Little Owls.
In any event, owls are usually depicted as wise and honorable and serve as Mentors, teachers, and advisors. Be aware, though, that they tend to share traits with the Absent-Minded Professor and the TV Genius, so take their advice with a grain of salt. There is also a tendency for owls to act as narrators/storytellers. 

الو کو علم کے نشان کے طور پر استعمال کرنے کی ایک لمبی روایت ہے۔ شاید اس کی وجہ اس کی چھوٹی عینک جیسی آنکھیں ہیں یا اس کا خاموش اور پر اسرار ہونا ہے۔. . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . .
عمومی طور پر کسی بھی واقعہ میں اُلُّو کی تصویر کشی ایک عقل منداور معزز  کے ساتھ کی جاتی ہے اوردانشور، ٹیچراور نصیحت  کنندہ کے طور پر استعمال کی جاتی ہے۔ . . . . . . . . .ممکنہ طور پر اُلّو کا استعمال ایک راوی اور قصہ گو کے طور پر بھی ہوتا ہے۔

 ملالہ میں ماشاءاللہ اُلّو والی تمام صفات ہیں چہرہ بھی گول اور آنکھیں بھی بالکل اُلّو  کی جیسی گول ہیں ناک بھی چپٹی الو کی چونچ جیسی ہے مزید برآن مغرب میں اُلّو کی طرح عقل مند ، معزز، دانشور، اور ایڈوائزر کے طور پر پہچان بھی ہوچکی ہے ، طالبان کی کہانیاں بنا بنا کر وہ ویسے ہی سناتی رہتی ہے سو قصہ گو بھی ہوئی ، علم اور تعلیم کا سمبل ویسے ہی اسے قرار دے دیا گیا ہے۔ مگر مسئلہ سارا مشرق اور مشرقی تہذیب کا ہے ۔ ہمارے وطن کی کوئی چیز مشہور اور محترم ٹھہرے تو ہمیں بہت خوشی ہوتی ہے۔ ا ب ہمارے اُلو بھی مغرب میں عقل مند ہیں تو یقیناہم خوش ہونگے۔
روزانہ پوری دنیا میں سینکڑوں اسکول بچیوں کو ڈرونز، اور دہشتگردی سے شہید کردینے والے نیٹو اور امریکیوں کو آخر ملالہ اتنی پیاری کیوں لگتی ہے۔ بیسیوں بچیوں کی روزانہ عصمت دری کرنے والے امریکہ اور اس کی اتحادی ملالہ کو "پیس "انعام  اسی لئے تو دے رہے ہیں ، کیوں کہ وہ اپنی زبان سے مسلمانوں کو پیسز (کٹے ہوئےٹکڑوں) میں تبدیل کرنے کا سرٹیفکیٹ دے رہی ہے۔ آخر جامعہ حفصہ کی بچیوں کی تعلیم پسندی قابل ِ مذمت اور اس کی ممد وح کیوں؟
خیر چھوڑیں اس بات کو ، تو بات چل رہی تھی اُلّو کی
مشرق میں اردو، فارسی ، عربی اور دیگر زبانوں میں اُلّو کے لئے مغرب سے بالکل برعکس تصور ہے۔
فیروزاللغات  میں اُلّو  کے متعلق یو ں لکھاہے۔
اُلّو،(۱) ایک پرندہ جوویرانوں میں رہتا ہے(۲) بے وقوف احمق
اُلّو بولنا، محاورہ(۱) کسی جگہ  کا ویران ہوجانا، (۲) کسی جگہ میں آبادی کا باقی نہ رہنا
اُلّوپھنسنا، محاورہ(۱) کسی بے وقوف کا قابو میں آجانا،(۲)فریب کھانا
اُلّو کا پٹھا، محاورہ (۱) نرا احمق، نہایت بے وقوف
اردو آن لائن انسائیکلو پیڈیا میں ہے
اُلُّو {اُل + لُو} (سنسکرت) اسم نکرہ (مذکر)
سنسکرت زبان سے ماخوذ اسم ہے۔ عربی رسم الخط کے اردو میں بطور اسم صفت استعمال ہوتا ہے۔ اور تحریراً 1780ء کو "کلیات سودا" میں مستعمل ملتا ہے۔
1. ایک پرند جو انسانوں سے دور ویرانوں میں رہتا اور منحوس سمجھا جاتا اور جو عموماً دن میںسوتا اور رات میں ہوکتا اور مختلف وحشتناک بولیاں بولتا ہے۔
؎ ان سے کہتا نہیں لکھ دیجیے نامے کا جواب
چپکا بیٹھا کبوتر مرا الو کی طرح، [1]
احمق، بیوقوف۔
"میں تو شکل دیکھتے ہی سمجھ گیا تھا کہ بس الو ہو۔"،
جبکہ فارسی اور عربی میں اُلّو کا استعمال منحوس اور ویرانے کے طور پر کیاجاتاہے۔
اب مغربی تہذیب میں اُلّو کو جتنی بھی عزت اور وقعت دی جائے مشرقی تہذیب میں وہ اُلّو کا اُلو ہی رہے گا، ہر شاخ پہ اُلّو بیٹھا ہے، تم کتنے اُلّو مارو گے۔ اسی طرح ایک شعر یو ں ہے۔
 برباد گلستاں کرنے کو تو ایک ہی اُلّو کافی تھا 
ہر شاخ پہ اُلّو بیٹھا ہے انجامِ گلستاں کیا ہوگا

No comments:

Post a Comment