Sunday, March 9, 2014

خواب سے تعبیر تک اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آئین میں علماء کا کردار

بسم اللہ الرحمن الرحیم
خواب سے تعبیرتک: پاکستان
اسلامی جمہوریہ اور اس کے اسلامی آئین میں علماء کاکردار
(جامعہ دارالعلوم کراچی میں گزرے یادگار دنوں، شفیق اساتذہ اورپیارے دوستوں کے نام
جو دن گذارے ہیں ہم نے یہانپر۔یہی اثاثہ ہے زندگی کا
تخصص فی الدعوہ 2010,11کے دوران حضرت استاد محترم مفتی اعظم پاکستان مفتی محمدرفیع عثمانی صاحب کی یادوں کو قلمبند کرتے ہوئے ، حضرت کی ہدایات کے مطابق جو حواشی بندہ نے مختلف کتابوں سے جمع کئے تھےبغیر تصحیح کے افادہ عامہ کے پیش نظر شائع کررہا ہوں
اس سلسلے میں علامہ اقبال مرحوم جومصورِ پاکستان ہیں کے اشعار سے نظریہ پاکستان پیش کروں گا۔ تاکہ سب کو معلوم ہوجائے کہ اقبال نے پاکستان کی کیا تصویر پیش کی ہے۔)

حضرت مولا نا اشرف علی تھانوی ؒ کامسلمانوں کے لئے علیحدہ ملک کے قیام کامؤقف اور مسلم لیگ کی تائید

پاکستان کے قیام میں علماء کاکردار روز اول سے شامل ہے ،اگرعلماء پاکستان کی حمایت نہ کرتے تو آج ہندوستان کانقشہ اور ہوتا،1936ء کےالیکشن میں مسلم لیگ بری طرح ناکام ہوئی تھی ، جن علماء نے پاکستان کی تحریک میں کردار ادا کیا ان میں حضرت مولانا اشرف علی تھانوی صاحب ایک نمایاں بلکہ سرپرست کا مقام رکھتے ہیں،حضرت اگرچہ براہ راست سیاست میں حصہ لینا پسند نہیں کرتے تھے البتہ سیاسی مسائل پر مولانا واضح اور غیر مبھم رائے کے حامل تھے،جسکا وہ مو قع بموقع اظہارفرماتے رہتے تھے،حضرت کامؤقف یہ تھا کہ حکومت مؤقتہ سے مخالفت اس لئے ہے کہ یہ کافر ہے اس کی بجائے حضرت تخیل پاکستان اور اسلامی نظام کے نفاذ کے مؤید اورحامی تھے۔حضرت نے ایک بیا ن دیا جو مسلم لیگ کے اجلاس منعقدہ دسمبر 1938ء بمقام پٹنہ میں پڑھا گیا،جس میں حضر ت نے فرمایا تھا کہ ’’اس وقت مسلمانوں کو اپنی جداگانہ تنظیم کی ضرورت ہے ،کیونکہ عقلاًونقلاًیہ بات ثابت ہے کہ جو قوم اپنی جداگانہ تنظیم نہیں رکھتی وہ دوسری قوم میں مدغم اور منجذب ہوکر کالعدم ہوجاتی ہے۔آپ نے مزید فرمایا کہ باخبر حلقے اس بات سے بخوبی آگاہ ہیں کہ مسلمانانِ ہند اس وقت جس دور سے گزررہے ہیں وہ ان کے لئے مشکلات اور پریشانیوں کادور ہے۔اس لئے مسلم لیگ کی تنظیم نو میں شریک ہونا چاہئے تاکہ مستقبل میں مسلمانوں کی تہذیب و معاشرت ،زبان وتعلیم وغیرہ کو محفوظ کیا جاسکے۔

۔
مولاناشبیراحمد عثمانی اور مسلم لیگ کی تائید وحمایت

1937میں صوبائی انتخابات کے بعد جب کانگریس نے چھ صوبوں میں وزارتیں قائم کیں تو مسلم لیگ اور کانگریس میں بڑے پیمانے سیاسی جنگ شروع ہوئی ،جمیعۃ علما ء کے کچھ زعماء کانگریس کی پالیسیوں کے موئید وحامی تھے ،کچھ حضرات تمام پالیسیوں سے متفق نہ تھے مگروہ بول نہیں سکتے تھے اس موقع پر مسلم لیگ کو جمہور مسلم میں اپنی آواز اور اثر قائم کرنے کے لئے مقتدر اور معروف علماء کی تائید وحمایت کی ضرورت تھی ورنہ عوام انکی بات سننے کو تیار نہ تھے یہ تاریخی کام اللہ تعالی نے حضرت مولانا علامہ شبیر احمد صاحب عثمانی ؒ کے لئے مخصوص کردیا تھا اور اس مہم کو سر انجام دینے میں انھیں مجدد الملۃ حضرت مولانااشرف علی تھانوی صاحب ؒ کی تائید حاصل تھی ، حضرت مولانا علامہ شبیر احمد صاحب عثمانی ؒ نے مسلم لیگ اور تحریک پاکستان کو مسلم عوام میں مقبول کرانے میں عظیم کردار ادا کیا۔
جمیعت علماء اسلام کاقیام
بر صغیرکے چیدہ چیدہ علماء ومشائخ نے شدت کے ساتھ یہ محسوس کیا کہ مسلم لیگ کی حمایت ،مدد اور تعاون کے لئے علماء کی ایک جماعت ،جمیعۃ علمائے ہند کی طرح ضرور ہونی چاہئے تاکہ مسلم عوام دینی اور شرعی نقطۂ نظر سے مسلم لیگ کی کھل کر حمایت کریں ،اور مستقبل قریب میں منعقد ہونے والے صوبائی اور مرکزی اسمبلیوں کے انتخابات میں مسلم لیگی امیدواروں کو زیادہ سے زیادہ کامیاب کرائیں ان علماء کے سرخیل حضرت علامہ مولاناشبیر احمد صاحب عثمانی ؒ تھے ،نیزدیگر علماء میں مولانا ظفر احمد صاحب عثمانی ،حضرت مفتی اعظم پاکستان مولانا مفتی محمد شفیع صاحب عثمانی ؒ ،مولانامحمد طاہر قاسمی ،مولانا محمد ابراہیم سیالکوٹی ،مولانا ابوالبرکات عبدالرؤف داناپوری ،مولاناآزاد سبحانی اور مولاناغلام مرشد خطیبِ جامعہ عالمگیری وغیرہ شامل تھے۔

الغرض ان بزرگوں کی کوششوں سے کل ہند جمیعۃ علماء اسلام کا قیام یکم شعبان المعظم 1326ھ مطابق۱۱جولائی 1945ء کو دارالامن اسلامی مچھوابازار کلکتہ میں عمل میں آیا ،اس جماعت کاقیام علماء،فضلاء کے اہم اجتماع میں جو زیر صدارت علامہ آزاد سبحانی منعقد ہوا تھا عمل میں آیا ، علامہ شبیر احمد عثمانی صاحب رحمۃاللہ علیہ اپنی علالت کی وجہ سے اس اجلاس میں شریک نہ ہوئے تاہم آپ نے ۹۲ صفحات پر مشتمل اپناپیغام بھیجا تھاجسمیں حضرت نے سیاسی اور عملی دلائل سے مسلمانوں کو مسلم لیگ میں شامل ہونے کامشورہ دیاتھا
جمیعۃ علمائے اسلام کاقیام حسب تحریر بالاعمل میں آیا اور حضرت علامہ شبیراحمد صاحب عثمانی ؒ کوان کی عدم شرکت کے باوجود اس کاصدر منتخب کرلیاگیا۔
کل ہند جمیعۃ علماء اسلام کانصب العین
کل ہند جمیعۃ علماء اسلام کانصب العین اعلاءِ کلمۃ اللہ اور احیاءِ دین وغلبۂ دینِ اسلام بصورت تبلیغ وتنفیذِ دین وتاسیسِ خلافتِ حکومت الہیہ کااحیائے اسلامی ہے۔ 
کل ہند جمیعۃ علماء اسلام کے اغراض ومقاصد 
۱۔۔۔اختصاص فی علوم الدین کے ذرائع مہیا کرنا
۲۔۔۔علماء کے وقار کو دین حق کے وقار کاایک ضروری ذریعہ ماننا 
۳۔۔۔علوم دین و معارف اسلامی کی صحیح تعلیم واشاعت کاسامان کرنا
۴۔۔۔دنیاوی اور دینی علوم کی تفریق کو ختم کرنا
علامہ شبیر احمد صاحب عثمانی کی دہلی میں قائد اعظم سے ملاقات اور پاکستان میں قانونِ اسلام کے نفاذکا وعدہ
10جون 1947 کو علامہ عثمانی نے دہلی میں قائد اعظم سے قانون اسلام کے نفاذ کا وعدہ لیا اور فرمایاکہ :۔’’ہم لوگوں کی تمام جدوجہد صرف اس لئے ہے کہ آپ کے وعدہ کے مطابق پاکستان کا نظام وقانون اسلامی ہوگا۔ اس وعدہ کی میں تجدید چاہتاہوں ،اس پر قائد اعظم نے واضح الفاظ میں جواب دیا کہ مولانا یقیناًپاکستان میں اسلامی قانون رائج ہوگا ،اور آپ صاحبا ن ہی اس مسئلہ کو طے کریں گے۔
پاکستان کاقیام
سلہٹ اور صوبہ سرحد کی رائے شماری کے بعد یہ بات طے ہوگئی کہ مشرقی پاکستان میں مشرقی بنگال اور ضلع سلہٹ شامل ہے اور مغربی پاکستان (جو12دسمبر 1971 کے بعد پاکستان ہے) میں مغربی پنجاب ،صوبہ سرحد ،صوبہ سندھ،صوبہ بلوچستان نیز ریاستیں جن میں بھاولپور ،چترال ،دیر ،سوات ،قلات ،مکران ،خیرپوراور دیگرریاستیں شامل ہیں۔
علامہ شبیر احمد عثمانی صاحب رحمۃاللہ علیہ کی کراچی میں آمد
مولاناشبیر احمد عثمانی صاحب ؒ ۶اگست 1947کو دیو بند سے کراچی روانہ ہوئے تاکہ پاکستان کی دستور ساز اسمبلی کے جلسوں اور افتتاح پاکستان کی تقاریب میں شرکت کرسکیں۔
علامہ شبیر احمد عثمانی صاحب رحمۃاللہ علیہ کا دستور سازی کیلئے انتخاب:10اگست 1947کو متحدہ ہند کے گورنر جنرل لارڈماؤنٹ بیٹن کی ہدایت پر ایک اجلاس منعقد کیا گیاتاکہ دستور سازاسمبلی کے افراد منتخب کئے جا سکیں جو قیام پاکستان کے بعد پاکستا ن کا دستور اور آئین مرتب کریں گے اس دستور ساز اسمبلی میں بعض ان با کمال افراد کونہیں لیا گیا ، جو مسلم اقلیت کے علاقوں سے الیکشن(منعقدہ 1946 ؁ء) میں کا میاب ہوئے تھے ۔جیسے قائد ملت لیاقت علی خان(جوضلع مظفر نگر سے کامیاب ہوئے تھے)علامہ شبیر احمد صاحب عثمانی رحمۃ اللہ علیہ (جو سہارنپور سے کامیاب ہوئے تھے)اور ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی (جو دہلی سے کامیاب ہو ئے تھے)وغیرہ ۔یوں یہ حضرات دستور ساز اسمبلی کارکن بننے سے رہ گئے تھے ۔
صرف قائد اعظم محمد علی جناح مرحوم،خواجہ ناظم الدین مرحوم،سردار عبد الرب نشترمرحوم،راجہ غضنفرمرحوم،مولوی تمیز الدین مرحوم ،مسٹر منڈل وغیرہ دستور ساز اسمبلی کے ممبر قرار پائے ۔اس پہلے اجلاس میں مملکت کے صدر ،وزیراعظم اور اسپیکر کا انتخاب عمل میں آیا۔قائدآعظم محمد علی جناح مرحوم صدر،لیاقت علی خان مرحوم وزیر اعظم،اور مولوی تمیز الدین مرحوم اسمبلی کے اسپیکر مقرر ہوئے۔
قیام پاکستان کے بعددستور ساز اسمبلی کے افراد کے علاوہ سابقہ عبوری حکومت میں شامل متعدد افراد کی رکنیت ختم ہو گئی تھی۔اسلئے اسمبلی میں خلاء پیدا ہو گیا تھااور اس خلاء کو پر کرنے اور دستور ساز اسمبلی میں افراد بڑھانے کی غرض سے صوبائی اسمبلی کو حق دیا گیاتھا کہ وہ اپنے اپنے علاقوں سے دستور ساز اسمبلی کے لئے افراد نامزد کرکے مرکز میں بھیج دیں۔ اس حق کے تحت مشرقی پاکستان کی اسمبلی نے بنگال کے کوٹے سے لیاقت علی خان مرحوم ،حضرت علامہ شبیر احمد صاحب عثمانی رحمۃ اللہ علیہ ،اور ڈاکٹراشتیاق قریشی مرحوم کو منتخب کرکے مرکز میں بھیج دیا جو دستور ساز اسمبلی کے رکن بن گئے۔
پاکستان کی پرچم کشائی کی تقریب مولانا شبیر احمد عثمانی اور مولاناظفر احمد تھانوی نے کی
14اگست 1947 کو پاکستان دنیا کے نقشہ پر ایک مملکت خداداد کی حیثیت سے آزاد اور خود مختار ریاست ابھر کر عالم میں وجود میں آئی ،قائداعظم محمد علی جناح بانی پاکستان نے مولاناشبیر احمد عثمانی صاحب سے درخواست کی کہ وہ پاکستانی جھنڈے کی رسم پر چم کشائی ادا کریں چنانچہ مولانا شبیراحمدعثمانی صاحب ؒ نے کراچی میں اپنے دست مبارک سے پاکستان کاپرچم بلند کیا،دوسری طرف یعنی مشرقی پاکستان میں خواجہ ناظم الدین وزیر اعلی مشرقی پاکستان نے مولاناظفر احمد تھانوی صاحب سے درخواست کی کہ وہ پاکستان کاپرچم بلند کریں ۔اس طرح پاکستان کے پرچم کو بلند کرنے میں علماء کرام کااعزازی کردار نمایا ں ہوا ،اور یہ عزت وتکریم اللہ ربِ ذوالجلال کا ایک بہت بڑاانعام تھا
قومی اسمبلی سے دستورساز کمیٹی کی تشکیل
چونکہ ابھی تک پاکستان کاآئین نہیں بن سکاتھااس لئے امور مملکت گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ 1935 کے تحت چلائے جانے لگے۔اس دوران قومی اسمبلی نے ماہرین فن اور علما کرام پر مشتمل ایک کمیٹی تشکیل دی جس کے سربراہ علامہ شبیر احمد عثمانی رحمۃاللہ علیہ مقرر کئے گئے اس کمیٹی کا کام دستور پاکستان مر تب کرکے منظوری کے لئے قومی اسمبلی کے سامنے پیش کرناتھااور اس سلسلے کے جملہ اختیارات علامہ شبیر احمد عثمانی صاحب رحمۃاللہ علیہ کو دئیے گئے تھے ،علامہ عثمانی رحمۃاللہ علیہ نے درج ذیل افراد کو کمیٹی میں شامل کیا،علامہ سید سلیمان ندوی رحمۃاللہ علیہ ،مولانا سید مناظر احسن صاحب گیلانی رحمۃاللہ علیہ ،مفتی اعظم پاکستان حضرت مولانا مفتی محمد شفیع صاحب رحمۃاللہ علیہ، ڈاکٹر حمید اللہ صاحب مرحوم، خطیب پاکستان مولانا احتشام الحق صاحب تھانوی رحمۃاللہ علیہ ،اور عبد الحمیدصاحب حیدرآبادی مرحوم وغیرہ۔
اتفاق سے اس وقت علامہ شبیراحمد صاحب عثمانی رحمۃ اللہ علیہ کے علاوہ بقیہ افراد پاکستان میں نہیں تھے اس لئے ضرورت اس بات کی تھی کہ بقیہ افراد کو بھی دعوت دے کر دستوری خاکہ مرتب کرنے کیلئے پاکستان لایاجائے یہ خدمت علامہ شبیر احمد صاحب عثمانی رحمۃاللہ علیہ نے خطیب پاکستان رحمۃاللہ علیہ کے سپرد کی ، خطیب پاکستان رحمۃاللہ علیہ نے بقیہ افر اد کو بھی پاکستان بلالیاالبتہ علامہ سید سلیمان ندوی رحمۃاللہ علیہ بر وقت نہ آسکے۔
اس کمیٹی نے شب وروز کی محنتوں سے قلیل مدت (۳ماہ )میں دستوری خاکہ مرتب کرکے قومی اسمبلی کے سامنے پیش کر دیا،لیکن بعض عوارضات کے تحت وہ مرتب نہ ہو سکا،تاہم یہ پہلی اسمبلی 24 اکتوبر 1954 تک بر قرار رہی۔
قائداعظمؒ کی وفات :
ابھی یہ دستور تکمیل کے مراحل طے کر کے منظور ہونے ہی والا تھاکہ ۱۱ستمبر 1948 ؁ء کوقائد اعظم کی وفات کا سانحہ پیش آگیاجسکی وجہ سے دستور کاکام تعطل کا شکار ہو گیااور سیکولر ذہن کے افراد آڑے آگئے۔
دستور کے کام میں رکاوٹ اور علا مہ شبیراحمد صاحب عثما نی رحمۃ اللہ علیہ کی ڈھاکہ کانفرنس:
جب علامہ اور خطیب پاکستان رحمۃاللہ علیہ نے یہ صورت حال دیکھی تو انہیں احساس ہوگیاکہ یہ لوگ آسانی سے اسلامی دستور پاس ہونے نہیں دیں گے ا س لئے علامہ شبیراحمد صاحب عثمانی رحمۃاللہ علیہ اور خطیب پاکستان نے 9,10 فروری 1949 ؁ء کو ڈھاکہ میں جمیعت علما اسلام نے ایک کانفرنس بلائی،تا کہ ارباب اختیار کے خلاف صدائے احتجاج بلند کی جا سکے۔
ڈھاکہ کانفر نس میں علماء اور عوام کثیر تعداد میں شریک ہوئے۔ 
قرار داد مقاصد کی منظوری: 
جب ارباب اقتدار کو کامیاب کانفرنس کا احساس ہوا ،تووزیر اعطم لیاقت علی خان مرحوم نے علامہ شبیر احمد صاحب عثمانی رحمۃاللہ علیہ سے سابقہ تیار شدہ دستوری مسودے کو آخری شکل دینے کی درخواست کی چنانچہ علامہ شبیراحمد صاحب عثمانی رحمۃاللہ علیہ نے اپنے سابقہ رفقاء کار اور مولانامحمد ادریس کاندھلوی رحمۃاللہ علیہ اورمولانا ظفر احمد عثمانی رحمۃاللہ علیہ وغیر ہ کے تعاون سے سابقہ دستور کو آخری شکل دے دی۔جسے دستور ساز اسمبلی نے ۲۱مارچ 1949 ؁ء کومعمولی ترجیحات کے ساتھ پاس کر لیااب یہ دستور قرار داد مقاصدپاکستان کے نام سے مشہور ہے۔ 
قرارداد مقاصد کا متن
۱۔تمام کائنات کی حکومت اللہ تعالی کوحاصل ہے ،اور اس کی طرف سے پاکستانی عوام کو جو اختیارات سپرد کئے گئے ہیں وہ ان کے پاس ایک مقدس امانت ہیں جن کو اللہ تعالی کی طر ف سے متعین حدود کے اندر استعمال کیا جائیگا۔ 
۲۔پاکستان کی طر ز حکومت وفاقی ہو گی۔
۳۔ریاست میں حکمرانی کے اختیارات کو عوام کے نمائندوں کے ذریعہ استعمال کیا جائے گا۔
۴۔دستور میں جمہوریت ،مساوات،رواداری اور سماجی انصاف کے اصول اسلام کے عین مطابق ہوں گے ۔
۵۔مسلمان اپنی زندگی کے تمام معاملات قرآن وسنت کے مطابق زیر عمل لا ئیں گے۔
۶۔اقلیتوں کے حقوق کا تحفظ اوران کو مذہبی اور ثقافتی آزادی حاصل ہو گی۔
۷۔پاکستان کے شہریوں کو بنیادی حقوق کی ضمانت حاصل ہو گی۔
۸۔پاکستان میں عدلیہ مکمل طور پر آزاد اورخود مختار ہو گی۔
۹۔پاکستان کی آزادی اور سا لمیت کا تحفظ کیا جائے گا۔
(
یہ قرارداد اب پاکستان کے دستور میں ابتدائیہ کے طور پر شامل ہے۔ )
بنیادی اصولوں کی کمیٹی ؛حکومت نے ایک اور کمیٹی بھی بنائی تھی جس کے سپرد یہ کام ہوا کہ وہ اسمبلی میں پیش کرنے کے لئے دستور کامسودہ مرتب کرے اور اسلامی تعلیمات کے بورڈ کی سفارشات کواس طریقے سے سموئے کہ دستور کاخاکہ اسلامی تعلیمات کے مطابق ہو ۔اس نے بورڈآف تعلیمات اسلام کی رپورٹ سے استفادہ کی بجائے ایک اور رپورٹ دستور سازی کے لئے حکومت کو7ستمبر1950 ؁ء کو پیش کی جس میں تعلیمات اسلام بورڈ کی سفارشات کو بلکل نظرانداز کردیاگیاتھا۔اور یہ خالصتاً ایک سیکولر طرز کادستوری خاکہ تھا،اسلام کے متعلق اس میں اس کے سوا کچھ نہ تھا کہ ہر مسلمان کے لئے قرآن کی تعلیم لازمی ہوگی ،اس میں ایک طرف تو تعلیمات اسلا م بورڈ کی کوئی سفارش شامل نہیں کی گئی تھی دوسر ی طرف شہریوں کو اتنی بھی آزادی نہیں دی گئی تھی جتنی ایک جمہوری ملک میں دی جاتی ہیں اور صدر کو بے پناہ اختیارات دئے گئے تھے اوپر سے حکومت کی طرف سے یہ دعوی کیاگیا کہ ’’اس رپورٹ کی تیاری کے بعد اسلامی ریاست کا نصب العین پوراہوگیا‘‘ جسکی وجہ سے پورے ملک میں عموماً اور دینی اور علمی حلقوں میں خصوصاً سخت اضطراب پیداہوا۔(پاکستان تاریخ وسیاست)
بورڈ آف تعلیمات اسلام 
شہید ملت لیاقت علی خان مرحوم نے دستور پاکستان کی دستور ساز ی میں دینی راہنمائی لینے کے لئے ۹اگست 1949 ؁ء کو ایک ادارہ بنام ’’بورڈ آف تعلیمات اسلام‘‘ تشکیل کیا تھا،جسکے چئیرمین حضرت علامہ سید سلیمان صاحب ندوی رحمۃ اللہ علیہ تھے (جوجون 1950 ؁ء میں پاکستان تشریف لائے) ،اور ارکان میں حضرت والد ماجد رحمۃ اللہ علیہ ، جناب ڈاکٹر حمیداللہ صاحب مرحوم کے علاوہ شیعہ مکتب فکر کے ممتاز عالم دین جناب مفتی جعفر حسین صاحب مجتھد مرحوم شامل تھے ، اور جو تحریک پاکستان میں قائد اعظم محمد علی جناح ،خان لیاقت علی خان مرحوم اور شیخ الاسلام علامہ شبیر احمد صاحب عثمانی رحمۃاللہ علیہ کے ساتھ شب وروز شریک رہے تھے۔ ۳۱دسمبر1949 ؁ء کو علامہ شبیراحمدصاحب عثمانی رحمۃاللہ علیہ کاانتقال ہوگیا۔
اس بورڈ نے شب وروز محنت کرکے بڑی جانفشانی اور گہری فکر اور وسیع النظری سے اپنی رپورٹ پاکستان کی دستور ساز اسمبلی کو پیش کی ، لیکن خان لیاقت علی خان مرحوم کی کابینہ میں اور اس سے باہر ایک بااثر گروپ اسلامی نظام کی راہ میں رکاوٹیں ڈالنے کے لئے طرح طرح کے ہتھکنڈے استعمال کر رہاتھا، اس نے بورڈ آف تعلیمات اسلام کی رپورٹ سے استفادہ کے بجائے بنیادی اصولوں؂کی جو رپورٹ7ستمبر1950 ؁ء کو دستور سازی کے لئے حکومت کو پیش کی اور جسکا اعلان بھی کیا گیا،اسمیں بورڈ کی سفارشا ت کو نظرانداز کردیا گیا،جسکی وجہ سے پورے ملک میں عموماً اور دینی وعلمی حلقوں میں خصوصاً سخت اضطراب پیدا ہو اور حکو مت پر سخت تنقید یں کیں گئیں ۔
اس تنقید کادفاع کرنے کے لئے28 اکتوبر 1950ء کووزیر داخلہ خواجہ شہاب الدین اور ایک دوسرے وفاقی وزیر ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی نے بیان دیا،کہ ہم نے یہ بنیادی اصولوں کی رپورٹ تیار کر نے میں بورڈآف تعلیمات اسلام سے بھی مشورہ لیاتھا۔
مفتی اعظم پاکستان حضرت مولانا مفتی محمد شفیع عثمانی صاحب رحمہ اللہ نے اس سے اگلے دن اعلان فرمایا کہ ہماری رائے پر عمل نہیں ہوا۔
بنیادی اصولوں کی رپورٹ چونکہ بورڈ آف تعلیمات اسلام کی سفارشات کے خلاف تھی اور پورے ملک کے تمام مکاتب فکر کے علماء نے اسے مسترد کردیا تھاجس کی وجہ سے عوام میں شدید اضطراب تھاچنانچہ حکومت کویہ رپورٹ واپس لینی پڑی۔ 
13علما کاپہلے اجتماع میں 22نکات کی منظوری دینا:
ان حضرات کاایک وفد جس میں خطیب پاکستان مولانااحتشام الحق صاحب تھانوی رحمۃ اللہ علیہ بھی شامل تھے،شہیدملت وزیراعظم خان لیاقت علی خان سے ملااور ان سے کہاکہ حکومت اسلامی دستور بنانے کے سلسلے میں اپنی ذمہ داری پوری کرے ۔اس پروزیراعظم لیاقت علی خان مرحوم نے کہا کہ آپ حضرات نے بنیادی اصولوں کی کمیٹی کی رپورٹ کومستر د کردیااب آپ ہمیں کوئی ایسے ’’اصول ‘‘دیں جس میں تمام دینی مکاتب کے علماء کرام متفق ہوں تاکہ بعد میں کوئی اختلاف پیش نہ آئے۔
وزیراعظم خان لیاقت علی خان مرحوم اگرچہ ان حضرات سے عقید ت رکھتے تھے ، اوران کی بات ردنہیں کرناچاہتے تھے مگر ان کی کابینہ میں چونکہ سیکولر ذہنیت کے لوگ بھی اچھی خاصی طاقت رکھتے تھے اور انکوناراض نہ کرنابھی وہ اپنی ضرورت سمجھتے تھے،شاید وہ یوں سمجھتے تھے کہ دستور سازی کے سلسلہ میں تمام مکاتب فکر کی طرف سے متفقہ سفارشات حاصل ہونا مشکل ہے انکے درمیان اگر اختلاف ہوا تو سیکولر عناصر اور ان علماء کے درمیان ’’کچھ لواور دو‘‘ کی بنیاد پر درمیانہ راستہ نکالاجاسکے گا۔ملک بھر کے تمام مکاتبِ فکر کے علماء کادستور سازی کے سلسلے میں اصولوں پر متفق کردینا بہرحال یہ ایک چیلنج تھا۔ 
اس چیلنج کوان حضرات نے بخوشی قبول کیا ،اس سلسلے میں خطیب پاکستان مولانا احتشام الحق صاحب تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے جوکوششیں کیں خاص طور سے قابلِ ذکرہیں،بزرگوں کی ان کوششوں کے نتیجے میں بالآخرکراچی میں مختلف مکاتب فکر کے علماکا ایک نمائندہ اجتماع منعقدہوا۔یہ اجتماع ۲۱،۳۱،۴۱،۵۱ربیع الثانی۰۷۳۱ ؁ھ مطابق ۱۲21,22,23,24جنوری 1951 ؁ء میں بصدارت علامہ سید سلیمان صاحب ندوی رحمۃاللہ علیہ منعقد ہوا،جس میں مشرقی ومغربی پاکستان کے ۱۳علما نے شرکت کی۔
اس اجلاس کی اہمیت کاکچھ اندازہ اس سے کیاجاسکتاہے کہ اس میں ہرمکتب فکر کی اہم ترین شخصیات نے بھرپور حصہ لے کرمتفقہ طور پر پاکستان کے دستور کے لئے 22نکات طے کئے تھے۔ شریکِ اجلاس ان اہم شخصیات کے اسمائے گرامی درج ذیل ہیں۔
13علماء کے اسمائے گرامی؛
۱۔علامہ سید سلیمان صاحب ندوی رحمۃاللہ علیہ(صدرِمجلس ) 
۲۔حضرت مفتی اعظم پاکستان مفتی محمد شفیع صاحب رحمۃاللہ علیہ(رکن بورڈ آف تعلیمات اسلام پاکستان)
۳۔حضرت مولاناظفراحمدانصاری صاحب رحمۃاللہ علیہ(سیکرٹری بورڈآف تعلیمات اسلام پاکستان)
۴۔مولاناعبدالحامد بدایونی صاحب رحمۃاللہ علیہ (صدر جمعیۃ علماء اسلام پاکستان)
۵۔مولانااحتشام الحق تھانوی صاحب رحمۃاللہ علیہ (مہتمم دارالعلوم الاسلامیہ اشرف آبادٹنڈوالہیارسندھ)
۶۔پیرصاحب محمد ہاشم مجددی صاحب رحمۃاللہ علیہ(ٹنڈوسائیں دادسندھ)
۷۔مولاناشمس الحق افغانی صاحب رحمۃاللہ علیہ(سابق وزیر معارف ریاست قلات)
۸۔مولاناداؤد غزنوی صاحب(صدرجمعیۃ اہلحدیث)
۹۔قاضی عبدالصمدسربازی صاحب (قاضی قلات)
۰۱۔مولانا محمداسماعیل صاحب  (ناظم جمعیۃ اہلحدیث گوجرانوالہ)
۱۱۔مولانااحمد صادق صاحب (مہتمم مدرسہ مظہرالعلوم کھڈہ کراچی)
۲۱۔مولانااحمدعلی صاحب (امیرانجمنِ خدام الدین لاہور)
۳۱۔مفتی کفایت حسین مجتھدصاحب (ادارہ عالیہ تحفظ حقوق شیعہ پاکستان لاہور)
۳۱۔مفتی جعفر حسین مجتھدصاحب (رکن بورڈ آف تعلیمات اسلام پاکستان)
۴۱۔مولاناحبیب اللہ صاحب (جامعہ دینیہ دارالہدی ٹیڑی خیرپور)
۶۱۔مولاناراغب احسن صاحب (نائب صدرجمعیۃعلماء اسلام مشرقی پاکستان)
۷۱مولانامحمدحبیب الرحمن صاحب  (نائب صدر جمعیۃ المدرسین سرسینہ شریف مشرقی پاکستان)
۸۱۔مولاناابوجعفر محمد صالح صاحب (امیرجمعیت حزب اللہ مشرقی پاکستان)
۹۱مولاناشمس الحق فریدپوری صاحب (صدرمہتمم مدرسہ اشرف العلوم ڈھاکہ)
۰۲۔مفتی محمد صاحب داد صاحب (سندھ مدرسۃ الاسلام کراچی) 
۱۲۔مولانامحمد بدرِعالم صاحب (استاذالحدیث دارالعلوم الاسلامیہ اشرف آباد سندھ)
۲۲۔ مولانامحمد یوسف بنوری صاحب (شیخ التفسیردارالعلوم الاسلامیہ اشرف آبادسندھ)
۳۲۔مولانامحمد ادریس کاندھلوی صاحب (شیخ الجامعہ العباسیہ بہاولپور)
۴۲۔حاجی خادم الاسلام محمد امین صاحب (خلیفہ حاجی ترنگ زئی المجاہدآبادپشاور خیبرپختونخواہ)
۵۲۔مولاناخیرمحمد جالندھری صاحب رحمۃاللہ علیہ(مہتمم مدرسہ خیرالمدارس ملتان )
۶۲۔مولانامفتی محمدحسن امرتسری صاحب رحمۃاللہ علیہ(مہتمم مدرسہ اشرفیہ نیلاگنبدلاہور)
۷۲۔مولاناسیدابوالاعلی مودودی صاحب رحمۃاللہ علیہ(امیرجماعت اسلامی پاکستان)
۸۲۔پروفیسرعبدالخالق صاحب رحمۃاللہ علیہ(رکن بورڈ آف تعلیمات اسلام پاکستان)
۹۲۔مولانااطہرعلی صاحب رحمۃاللہ علیہ(صدر عامل جمعیۃ علماء اسلام مشرقی پاکستان)
۰۳پیرصاحب محمدامین الحسنات صاحب (مانکی شریف خیبرپختونخواہ)
۱۳۔مولانامحمد علی جالندھری صاحب (مجلس احرار اسلام پاکستان)
ان حضرات کا ان مختلف الخیال علماء کو ایک جگہ جمع کرناکوئی معمولی بات نہیں، یقیناایک بڑی کامیابی تھی ۔پھر ان علماء نے شب وروز کی محنت سے ۲۲نکات پر مشتمل سفارشات مرتب کرکے حکومت کے سامنے پیش کیں ،جو پاکستان کے لئے ایک تاریخ ساز دستاویزہے،اور اسلامی نظام کے مخالفین کے ’’عذرِلنگ ‘‘ کا ناقابلِ تردید جواب ہے کہ مختلف مکاتبِ فکر کی موجودگی میں پاکستان میں اسلامی نظام قائم کرنا ممکن نہیں ۔ ان متفقہ ۲۲نکات نے اسلامی نظام کے مخالفین کا منہ اس سلسلہ میں ہمیشہ کے لئے بند کردیاہے۔ اب بھی اگر کوئی مختلف دینی مسالک کو اسلامی نظام اور اسلامی قوانین کی راہ میں رکاوٹ قرار دیتاہے تو وہ یاتو اس تاریخی دستاویز سے بے خبر ہے یا پھر لوگوں کودھوکہ دے رہاہے۔
ان بزرگوں کے طے کردہ متفقہ ۲۲نکات برائے 
دستورسازی وقانون سازی
اسلامی مملکت کے دستور میں حسب ذیل اصول کی تصریح لازمی ہے:
(
۱) اصل حاکم تشریعی و تکوینی حیثیت سے صرف اللہ رب العالمین ہے۔
(
۲) ملک کا قانون کتاب و سنت پر مبنی ہوگا اور کوئی ایسا قانون نہ بنایا جاسکے گا نہ کوئی ایسا انتظامی حکم دیا جا سکے گا جو کتاب و سنت کے خلاف ہو۔(تشریحی نوٹ):اگر ملک میں پہلے سے کچھ ایسے قوانین جاری ہوں جو کتاب وسنت کے خلاف ہوں تو اسکی تصریح بھی ضروری ہے کہ وہ بتدریج ایک معینہ مدت کے اندر منسوخ یا شریعت کے مطابق تبدیل کر دئے جائیں گے۔ 
(
۳) مملکت کسی جغرافیائی، نسلی،لسانی یا کسی اور تصویر پر نہیں بلکہ ان اصول و قواعد پر مبنی ہوگی جن کی اساس اسلام کا پیش کیا ہوا ضابطہ حیات ہے۔
(
۴) اسلامی مملکت کا فرض یہ ہوگا کہ قرآن وسنت کے بتائے ہوئے معروفات کو قائم کرے منکرات کو مٹائے اور شعائر اسلامی کے احیاء و اعلاء اور مسلّمہ اسلامی فرقوں کے لئے ان کے مذہب کے مطابق ضروری اسلامی تعلیم کا انتظام کرے۔
(
۵) اسلامی مملکت کا فرض یہ ہوگا کہ وہ مسلمانانِ عالم کے لئے رشتہ اتحاد و اخوت کو قوی سے قوی تر کرنے اور ریاست کے مسلم باشندوں کے درمیان عصبیت جاہلیہ کی بنیادوں پر نسلی، لسانی، علاقائی یا دیگر مادّی امتیازات کے ابھرنے کی راہیں مسدود کرکے ملت اسلامیہ کی وحدت کے تحفظ کا انتظام کرے۔
(
۶) مملکت بلا امتیاز مذہب و نسل وغیرہ تمام ایسے لوگوں کی لابدی انسانی ضروریات یعنی غذا، لباس، مسکن، معالجہ اور تعلیم کی کفیل ہوگی جو اکتساب رزق کے قابل نہ ہوں یا عارضی طور پر بے روزگاری، بیماری یا دوسرے وجوہ سے فی الحال سعی اکتساب پر قادر نہ ہوں۔
(
۷) باشندگان ملک کو وہ تمام حقوق حاصل ہونگے جو شریعت اسلامیہ نے ا ن کو عطا کئے ہیں۔ یعنی حدود قانون کے اندر تحفظ جان و مال وآبرو،آزادی مذھب و مسلک،آزادئ عبادت، آزادئ ذات،آزادئ اظہار رائے، آزادئ نقل و حرکت، آزادئ اجتماع،آزادئ اکتساب رزق ترقی کے مواقع میں یکسانی اور رفاہی ادارات سے استفادہ کا حق۔
(
۸) مذکورہ بالا حقوق میں سے کسی شہری کا کوئی حق اسلامی قانون کی سند جواز کے بغیر کسی وقت سلب نہ کیا جائے گا اور کسی جرم کے الزام میں کسی کو بغیرفراہمی موقعہ صفائی و فیصلہ عدالت کوئی سزا نہ دی جائے۔
(
۹) مسلّمہ اسلامی فرقوں کو حدود قانون میں پوری مذہبی آزادی حاصل ہوگی انہیں اپنے پیرؤوں کو مذہبی تعلیم دینے کا حق حاصل ہوگا وہ اپنے خیالات کی آزادی کے ساتھ اشاعت کر سکیں گے۔ انکے شخصی معاملات کے فیصلے انکے اپنے فقہی مذہب کے مطابق ہونگے اور ایسا انتظام کرنا مناسب ہوگا کہ انہیں کے قاضی یہ فیصلے کریں۔
(
۰۱غیر مسلم باشند گان مملکت کو حدود قانون کے اندر مذہب وعبادات،تہذیب وثقافت اور مذہبی تعلیم کی پوری آزادی ہو گی اور انہیں اپنے شخصی معاملات کا فیصلہ اپنے مذہبی قانون یارسم ورواج کے مطابق کرانے کاحق حاصل ہوگا۔
(
۱۱) غیر مسلم باشندگانِ مملکت سے حدودِ شرعیہ کے اندر جو معاہدات کئے گئے ہوں ۔انکی پابندی لازمی ہوگی اورجن حقوق شہری کا ذکر دفعہ نمبر۷میں کیاگیا ہے ان میں غیر مسلم باشندگان ملک اور مسلم باشندگان ملک سب برابر کے شریک ہوں گے۔
(
۲۱) رئیس مملکت کامسلم مرد ہوناضروری ہے،جسکے تدین ۔صلاحیت اور اصابت رائے پر جمہور یاانکے منتخب نمائندوں کو اعتماد ہو۔
(
۳۱) رئیس مملکت ہی نظم مملکت کا اصل ذمہ دار ہوگا۔البتہ وہ اپنے اختیار ات کاکوئی جزو کسی فرد یاجماعت کو تفویض کر سکتاہے ۔
(
۴۱) رئیس مملکت کی حکومت مستبدانہ نہیں بلکہ شورائی ہو گی یعنی وہ ارکان حکومت اور منتخب نمائندگانِ جمہور سے مشورہ لیکر اپنے فرائض انجام دے گا۔
(
۵۱) رئیس مملکت کو یہ حق حاصل نہ ہوگا کہ وہ دستور کو کلاً یاجزواً معطل کرکے شوری کے بغیرحکومت کرنے لگے۔
(
۶۱) جو جماعت رئیس مملکت کے انتخاب کی مجازہو گی وہی کثرت آراء سے اسے معزول کرنے کی بھی مجاز ہوگی۔
(
۷۱) رئیس مملکت شہری حقوق میں عامۃالمسلمین کے برابر ہوگااور قانون مؤاخذہ سے بالاتر نہ ہو گا۔
(
۸۱) ارکان وعمال حکومت اور عام شہریوں کیلئے ایک ہی قانون و ضابطہ ہوگااور دونوں پر عام عدالتیں ہی اس کو نافذکریں گی۔
(
۹۱) محکمہ عدلیہ ،محکمہ انتظامیہ سے علیٰحدہ اور آزاد ہوگا تاکہ عدلیہ اپنے فرائض کی انجام دہی میں ہیئت انتظامیہ سے اثر پذیر نہ ہو۔
(
۰۲) ایسے افکار و نظریات کی تبلیغ و اشاعت ممنوع ہوگی جو مملکت اسلامی کے اساسی اصول و مبادی کے انہدام کا باعث ہوں۔
(
۱۲) ملک کے مختلف ولایات و اقطاع مملکت واحدہ کے اجزاء انتظامی متصور ہوں گے۔ انکی حیثیت نسلی ،لسانی یا قبائلی واحدہ جات کی نہیں بلکہ محض ا نتظامی علاقوں کی ہوگی جنہیں انتظامی سہولتوں کے پیش نظر مرکز کی سیادت کے تابع انتظامی اختیارات سپرد کرنا جائز ہوگا مگر انہیں مرکز سے علیحدگی کا حق حاصل نہ ہوگا ۔
(
۲۲) دستور کی کوئی ایسی تعبیر معتبر نہ ہوگی جو کتاب و سنت کے خلاف ہو۔
لیاقت علی خان کی شہادت:
اسی دوران کہ ہمارے بزرگ ان سفارشات کے پاس کرانے کیلئے ساعی و کوشاں تھے اور لیاقت علی خان نے بھی بنیادی اصولوں کی کمیٹی کو عوام اور علماء کی رائے کے مطابق دستور بنانے کی ہدایت کردی تھی کہ۲۲نکات کی منظوری کے صرف۹ماہ بعد ۶۱اکتوبر ۱۵۹۱ء ؁ کو لیاقت علی خان کی شہادت کاسانحہ پیش آگیا جس سے دستور کاکام اور تعطل کا شکار ہو گیا۔
جناب لیاقت علی خان مرحوم کی شہادت کے وقت وہ گورنرجنرل کے عہدے پرتھے۔ان کو قائداعظم کی وفات کے بعد گورنرجنرل بنایاگیاتھا۔ اب لیاقت علی خان صاحب مرحوم کی شہادت کے بعد یہ وزیراعظم ہوگئے اور گورنرجنرل کے عہدے پرغلام محمد جوپہلے وزیرخارجہ تھاوہ گورنرجنرل کے عہدے پرآگیا۔
ہفتۂ دستور:
۴؂خواجہ ناظم الدین مرحوم نے جولائی ۲۵۹۱ ؁ء میں دستوری مسودہ مرتب کرنے کے لئے ایک دوسری کمیٹی بنائی ، یہ بھی بنیادی اصولوں کی کمیٹی کہلائی اور اس نے دستوری مسودہ مرتب کرنے کا کام دوبارہ شروع کردیا۔بنیادی اصولوں کی کمیٹی نے جب اپنی رپورٹ تیار کرلی توحکومت کی جانب سے اس کی رپورٹ ۲۲نومبر۲۵۹۱ ؁ء کو منظرعام پرلانے کااعلان کیاگیا،ضرورت اس بات کی تھی کہ حکومت کومتنبہ کردیاجائے کہ عوام کوئی قانون قرآن وسنت کے خلاف قبول نہیں کریں گے۔ اسی غرض سے نومبر میں ملک بھر میں ہفتہ دستور منایاگیا،اور ملک کے طول وعر ض میں علماء نے مختلف جلسے کئے ،جس میں یہ پیغام دیاگیاکہ پاکستان میں قرآن وسنت کے خلاف کوئی دستور منظور نہیں ہوگا۔ اس پرعلماء کواعتماد میں لینے کے لئے وزیر اعظم خواجہ ناظم الدین نے اکابر علماء کے نام دعوت نامے جاری کئے اور کہا کہ آپ حضرات جلد کراچی پہنچیں تاکہ ۲۲نومبر ۲۵۹۱ء کو جو دستور اسمبلی میں پیش کیا جا ر ہا ہے اس پر غور وخوض کیا جائے۔
علماء کرام کا وفد:
چناچہ وزیراعظم کی دعوت پر۹۱ نومبر ۲۵۹۱ء کو حسب ذیل علماء کرام گفتگو کے سلسلے میں کراچی پہنچے۔ مولانا ظفر احمد عثمانی رحمۃاللہ علیہ ٹنڈوالہیار سندھ، مفتی محمد حسن امرتسری رحمۃاللہ علیہ لاہورپنجاب، مولاناادریس کاندھلوی رحمۃاللہ علیہ بہاولپور پنجاب، حضرت مفتی اعظم پاکستان مولانا مفتی محمد شفیع صاحب رحمۃاللہ علیہ کراچی سندھ، خطیب پاکستان رحمۃاللہ علیہ کراچی، مولانااطہر علی رحمۃاللہ علیہ مشرقی پاکستان ،مولانا خیر محمد جالندھری رحمۃاللہ علیہ ملتان پنجاب، مولانا شمس الحق فرید پوری رحمۃاللہ علیہ مشرقی پاکستان، مولانا داؤد غزنوی رحمۃاللہ علیہ لاہور پنجاب، مولانا مفتی دین محمد رحمۃاللہ علیہ مشرقی پاکستان، مولانا عبد الحق اکوڑہ خٹک رحمۃاللہ علیہ صوبہ سرحد ۔
یہ علماء کرام۹۱ نومبر۲۵۹۱ء کووزیراعظم ہاؤس پہنچے اور خواجہ ناظم الدین سے ملاقات کی، حکومت کی طرف سے خواجہ ناظم الدین ، اسپیکر اسمبلی مولوی تمیزالدین،سردار عبد الرب نشتروغیرہ تھے۔علماء نے اپنے مؤقف کی وضاحت کی،حکومت کی طرف سے مولوی تمیزالدین نے اپنے تحفظات و اشکالات پیش کئے جن کاعلماءِ کرام نے مناسب حل پیش کیا۔ بالآخر خواجہ ناظم الدین مرحوم نے کہا کہ آپ حضرات بے فکر رہیں انشاء اللہ علما و عوام کی خواہش کے مطابق آئین بنایا جائے گا۔ اس پرحضرت مولانا ادریس کاندھلوی رحمۃاللہ علیہ نے فرمایا ہماری بھی دعا ہے کہ اللہ آپ کو ناظم دین بنائے۔
دستوری خاکہ اسمبلی میں پیش ہوا
اس کے بعدحکومت نے اعلان کیا کہ علماء کا مرتب شدہ دستور ۲۲نومبر کے بجائے ۲۲دسمبر ۲۵۹۱ء میں پیش کیاجائے گا، پھر۲۲دسمبرکو جو دستور ی خاکہ اسمبلی میں پیش کیاگیا اگرچہ اس میں کافی حدتک علماء کی سفارشات کالحاظ رکھاگیاتھامگرا س میں قانون سازی پر قرآن کی پابندی کا ذکر تو تھا لیکن حدیث اور سنت کاتذکرہ نہیں تھا۔
بظاہر اس میں خواجہ ناظم الدین کاکوئی دخل نہیں تھابلکہ کمیٹی کے لوگوں کاکام تھااور ہوسکتاہے کہ قرآن کے ساتھ سنت کالفظ اصلاًہومگر کتابت میں غلطی سے رہ گیاہو ۔ن
۲۲نکات کیلئے ۳۳علماء کا دوسرااجتماع
اسکا نوٹس لیتے ہوئے ان حضرات نے علماء کی ایک اور میٹنگ بلائی یہ اجلاس ۱۱جنوری ۳۵۹۱ء کوحضرت خطیب پاکستان مولانااحتشام الحق تھا نوی رحمۃاللہ علیہ کی رہائش گاہ پربلایاگیا۔اس اجتماع میں علمائے کرام کے ۹ اجلاس ہوئے جن میں چند اہم ترمیمات کے بعداسمبلی میں پیش شدہ دستوری نکات کی تائید کی اورسابقہ دستوری نکات میں مزیددوحضرات(،مولانامحمد ابراھیم سیالکوٹی رحمۃاللہ علیہ،مولانامفتی دین محمد ڈھاکہ رحمۃاللہ علیہ)نے دستخط ثبت کئے یوں۳۳علمائے کرام کے دستخطوں سے دستوری نکات کو آخری شکل دے دی گئی۔
۴؂قرارداد مقاصد سے اسلامی قانون تک ؛ڈاکٹر حفیظ الرحمن صدیقی ص۶۴۔پاکستان تاریخ وسیاست؛ڈاکٹر صفدر محمودص۷۴۔حق نوائے احتشامیہ پاکستان نمبر۳۷
۶۱جنوری کو علماء کادوسرا اجلاس ہوااور اس سے صرف ۶دن بعد ۲۲جنوری کواحرار کاایک وفد خواجہ ناظم الدین سے ملاقات کے لئے گیااور ان کے سامنے تین مطالبات رکھے ،اور ان کوایک ماہ کاالٹی میٹم دیا کہ ایک ماہ کے اندر اندر ہمارے مطالبات تسلیم کرلئے جائیں ورنہ ہم ڈائریکٹ ایکشن شروع کریں گے۔وہ تین مطالبات یہ تھے۔
۱۔ قادنیوں کوغیرمسلم اقلیت قرار دیاجائے۔
۲۔ظفراللہ قادیانی کو وزیر خارجہ کے عہدے سے ہٹایاجائے۔
۳۔تمام کلیدی عہدوں سے قادیانیوں کو ہٹایاجائے۔

۵؂محمد علی بوگرہ کادور حکومت؛جب گورنرجنرل غلام محمد نے دیکھاکہ گورنر کے اختیارات کم کردئیے گئے ہیں اور علماکامرتب شدہ دستوراسمبلی میں پاس ہونے والا ہے تواس نے ۷۱اپریل ۳۵۹۱ ء خواجہ ناظم الدین اور ان کی کابینہ کو برطرف کردیااور محمد علی بوگرہ کو جو امریکہ میں سفیر تھا بلاکر وزیر اعظم بنا دیا یوں پاکستان اسلامی دستور سے محروم ہو گیا۔حالانکہ خواجہ ناظم الدین یہ وعدہ کرچکے تھے کہ مذکورہ متفقہ دستورپاس کرالیاجائے گااور قرآن کے ساتھ سنت کا لفظ بھی بڑھادیا جائے گا۔محمد علی بوگرہ کو لانے کا مقصد یہ تھا کہ وہ اسلامی دستور سے گریز کا راستہ تلاش کریں ۔چنانچہ اس سے گریز کی راہ انہوں نے تلاش کرلی اور وہ یہ تھی کہ دستور سازی کاکام ’’سردست ‘‘ روک دیا جائے اور کام چلانے کے لئے۵۳۹۱ء کے ایکٹ میں ضروری ترمیمات کرکے اسے عارضی دستور کی حیثیت سے اختیار کرلیاجائے ۔یہ اسکیم جب منظرعام پر آئی تو عا مۃ المسلمین حکومت کی پس پردہ بد نیتی کو بھانپ گئے اور انہوں نے اس کی زبردست مخالفت کی ۔ملک کے طول وعرض میں جلسے ہوئے جن میں کہاگیاکہ ملک کا نظام پہلے ہی سے ۵۳۹۱ء کے ایکٹ کے تحت چل رہاہے ، لہذا عارضی دستور بنانے کی ضرورت نہیں ،جو دستو ر بنے وہ مستقل ہو اور ۲۵۹۱ء والی سفارشات کے مطابق ہو۔محمدعلی بوگرہ نے دستور ساز اسمبلی کا سلسلہ پھر سے شروع کیا یہاں تک کہ ۴۵۹۱کے وسط تک دستور سازی کی دوخواندگیاں مکمل ہوگئیں ،صرف تیسری خواندگی جو صرف چند ہفتوں کاکا م تھی ۔ اس کے نفاذکے لئے ۵۲دسمبر ۴۵۹۱ء کی تاریخ مقرر کر لی گئی تھی ۔اگر دستور مکمل ہوجاتاتو پھر ملک میں عام انتخابات ہوتے اور نئی حکومت تشکیل پاتی ،غالب امکان تھا کہ غلام محمد اور ان کے قبیل کے افراد دوبارہ برسراقتدار نہ آسکیں گے ،یہ اندیشہ غلام محمد اور ان کے ہم خیال لوگوں کو گوارہ نہ تھا،چنانچہ اس کے خلاف نئی سازش تیار کی گئی۔سہروردی صاحب نے زیورچ سے ایک اخباری بیان جاری کیاکہ موجودہ دستور ساز اسمبلی غیر نمائندہ ہے لہذا اس کو توڑ دیا جائے،اس مطالبے کی حمایت میں چند چھوٹی چھوٹی آوازیں اور بھی اٹھوائیں گئیں اور ان آوازوں کو بہانہ بنا کر اسمبلی توڑ دینے کا ارادہ کر لیا گیا ، اس سازش کے خالق گورنرجنرل غلام محمد اور ان کے معاون کار اسکندر مرزا تھے ،محمد علی بوگرہ اس سازش سے بے خبر تھے انہیں دورہ مختصر کرکے واپس آنے کی ہدایت کی گئی ،۳۲اکتوبر کو رات کے ۹ بجے محمد علی بوگرہ کراچی ائیرپورٹ پر اترے تو انہیں گھر جانے نہیں دیا گیا بلکہ سیدھے گورنر جنرل ہاؤس پہنچایا گیا۔ وہاں اسکندر مرزا نے بند کمرے میں بٹھاکر انہیں اس بات پر بالجبر مجبور کیاکہ وہ ریڈیوپر دستور ساز اسمبلی توڑنے کافرمان پڑھ کر سنائیں اور گورنر جنرل غلام محمد کی مرضی کے مطابق نئی کابینہ تشکیل دیں،محمد علی بوگرہ کو یہ صورت پسند نہ مگر حالت جبر میں گوارہ کرنی پڑی وہ روتے ہوئے گورنرجنرل ہاؤس سے نکلے اور بند گاڑی میں ریڈیو اسٹیشن لے جائے گئے جہا ں انہوں نے محولہ بالاتقریر پڑھ کر سنائی ۔اور ۴۲اکتوبر۴۵۹۱ء میں پہلی دستور سازاسمبلی تحلیل کردی گئی، اس کی جگہ نئی کابینہ بنائی گئی، ا سمیں اسلام پسند وزراء کو شامل کرنے سے بطور خاص گریز کیاگیا ۔دستورسازاسمبلی کے توڑنے پر ملک بھر میں سوگ کی سی کیفیت طاری ہوگئی تھی کیونکہ اس واقعہ نے دستورسازی کی سات سالہ کوشش کو بیک جنبشِ قلم خاک میں ملادیاتھا، دستورسازاسمبلی تحلیل کرنے کے خلاف اسپیکرمولوی تمیزالدین خان صاحب نے سندھ کورٹ سے رجوع کیااور اس کیس کافیصلہ ان کے حق میں ہوگیاالبتہ حکومتی درخواست پرفیڈرل کورٹ کے چیف جسٹس محمد منیرصاحب نے نظریہ ضرورت کی بنیادپر آئین سازاسمبلی کی تحلیل کو درست قرار دیا۔ غلام محمدنے ۱۱اگست۵۵۹۱ء کومحمد علی بوگرہ کوبرطرف کردیا۔(قرارداد مقاصد سے اسلامی قانون تک)
یہ واقعہ۶، اگست۵۵۹۱ ؁ء کاہے صورت یہ بنی کہ غلام محمد صاحب کی کچھ ذہنی کیفیت نامناسب ہوگئی تھی ،چوہدری محمد علی صاحب نے ان کودوماہ کی رخصت لینے پررضا مندکرلیااور اسکندر مرزا نے قائم مقام گورنرجنرل کے عہدے کاحلف اٹھایا۔۷؂دوسری دستور سازاسمبلی کاقیام اور ۶۵ء کے آئین کی منظوری ۷جولائی ۵۵۹۱میں دوسری دستور ساز اسمبلی کا قیام عمل میں آیاجس کے اسپیکر مولاناعبدالوہاب خان مقرر ہوئے ،نئی دستور ساز اسمبلی کی ہیئت ترکیبیہ سابقہ اسمبلی سے اس لحاظ سے مختلف تھی کہ اس میں ہندو اور ہندو نواز عناصر کا تناسب بہت زیادہ تھا،اپریل ۴۵۹۱ء میں مشرقی پاکستان اسمبلی کے انتخابات میں جگتو فرنٹ نے مسلم لیگ کو بہت بری طرح شکست دی تھی ،۹۰۳ارکان پر مشتمل وہاں کی صوبائی اسمبلی میں مسلم لیگ کے صرف ۰۱ارکان منتخب ہوئے باقی ماند ہ افراد جگتو فرنٹ کے تھے اس میں اکثریت عوامی لیگی اور علاقہ پرست ارکان کی تھی جو سیکولر بھی تھے اور ہندو نواز بھی ۔ہندو بھی کافی تعداد میں تھے چنانچہ دستورساز اسمبلی میں وہاں سے اسی قسم کے بہت سے لوگ منتخب ہوکر آئے ،ان میں شیخ مجیب الرحمن،حسین سہروردی،اے کے فضل الحق ،عطاء الرحمن خان، ابوالمنصوراحمد ،ابوحسین سرکاروغیرہ شامل تھے ،ظاھر ہے انہیں اسلامی دستور کب گوارا ہوسکتاتھا،مغربی پاکستان کی اسمبلیوں سے بھی بد قسمتی سے اسی قسم کے بہت سے لوگ منتخب ہوئے جن کے سرخیل مشہور کانگریسی لیڈر ڈاکٹر خان صاحب تھے ۔
ان دنوں ملک کے وزیر اعظم چوہدری محمد علی تھے ،وہ اگرچہ نہایت مخلص مسلمان تھے ،اسلامی دستور اسمبلی کی ہیئت ترکیبیہ میں یہ ناموافق تبدیلی ان کے کام کی راہ میں سخت رکاوٹ تھی ،مشرقی پاکستان سے منتخب ہوکر آنے والے ارکان کے ایک اور مسئلہ کا بھی اضافہ کر دیا تھا وہ یہ کہ وہ زیادہ صوبائی خودمختاری کے خواہاں تھے ،ان دشوار گزار حالات میں اسلامی دستور بنانا سخت مشکل کا م تھا مگر چودھری محمدعلی صاحب کا تدبر اور انکی صلاحیت کام آئی ، انہوں نے ان سب مشکلات پر قابو پالیااور ایک دستوری مسودہ پر سب کو متفق کرلیا۔
دستور ساز اسمبلی نے سابقہ دستور کا جائزہ لیا اور کچھ ترمیمات کے بعد ۸جنوری ۶۵۹۱ کو چوہدری محمد علی نے اسے دستور ساز اسمبلی میں پیش کیا جسے اسمبلی نے ۹۲فروری ۶۵۹۱ء کو حتمی شکل میں منظور کرلیایوں پاکستان کو پہلادستور ملا ،جو ۳۲ مارچ ۶۵۹۱ء کونافذالعمل ہوا ،اسی مناسبت سے ۳۲مارچ کو منائے جانے والے یوم قرار داد پاکستان کو ۶۵۹۱ء میں یوم جمہوریہ کا نام دیاگیا۔یہ ایک بہت بڑا کارنامہ تھا جوچوھدری محمد علی کی وزارت عظمی کے زمانے میں دستور ساز اسمبلی نے انجام دیاچنانچہ پورے ملک میں دستورسازی کی تکمیل پر بے پناہ مسرت کااظہار کیاگیااور ۳۲مارچ ۶۵۹۱ء کو جس روز دستور کانفاذ عمل میں آیاملک بھر میں جشن منایاگیا۔۶۵ ء ؁کے دستور کی خوبیاںیہ دستور اگرچہ سابقہ متفقہ دستور نہیں تھاتاہم یہ آئین کافی حد تک اسلامی تھا،قرار داد مقاصد دستور کی سنگ بنیاد بنی اور قرآن وسنت کے منافی تمام قوانین کو منسوخ یا تبدیل کر نے کاعندیہ دیاگیا،قوانین کی تبدیلی کرنے کے سلسلے میں لائحہ عمل طے کرنے کے لئے دستور کے نفاذ کے ایک سال کے اندر اندر اسلامی نظریاتی کونسل قائم کی جائے گی جو پانچ سال کے اندر اس کام کو کرنے کی پابند ہوگی ،اسی دستور کے تحت لفظ اسلام پاکستان کاجزو بنا اور پورانام یوں ہوگیا’’اسلامی جمہوریہ پاکستان ‘‘ورنہ اس سے قبل صرف جمہوریہ پاکستان بولاجاتاتھا ۔یہ دستور ۶۵۹۱ء کا آئین کہلاتا ہے ،جو مرکزیت ،محدود جمہوریت اور بیوروکریٹک عزائم کاآئینہ دار تھا۔اس کے علاوہ اسکی اتنی خوبیاں تھیں کہ جن کا احاطہ دشوار ہے ۔۶۵ء کے دستورکی خامیاں اپنی سب خوبیوں کے باوجود اس دستور میں کچھ خامیا ں بھی رہ گئیں تھیں ۔۱۔۔۔اس دستور میں ہر شخص کو مذہب کی تبدیلی کااختیار دے کر ارتداد کادروازہ کھول دیا گیاتھا۲۔۔۔اسلامی پرسن لاء میں قرآن وسنت کی بجائے خودرائی کی راہ اختیار کرکے اجتہاد کی راہ ہموار کی گئی۔۳۔۔۔انتخاب کاطریقہ کار نہیں طے کیاگیا تھا کہ انتخابات جداگانہ ہوں گے یامخلوط۔
۸؂وزیراعظم چودھری محمدعلی کا استعفیٰ اس زمانے میں اسکندر مرزا گورنرجنرل تھے، انہیں ہی اسلامی جمہوریہ پاکستان کاپہلاصدر بنا یا گیا،ملک کی بد قسمتی کہ چوہدری محمد علی وزیر اعظم نہ رہ سکے ،مخالفین نے ایسے حالات پیدا کردئیے کہ انہوں نے استعفی دے دیاورنہ اس کے بعد اسلامی قانون کے نفاذ کاکام تیزی سے شروع کر دیاجاتا۔
سہروردی صاحب کاوزیراعظم بننا اور انتخابات کے طریقہ کی منظوری چوہدری محمد علی صاحب کے استعفیٰ دینے کے بعد سہروردی صاحب وزیر اعظم بنادئیے گئے اسکند ر مرزا تو تھا ہی سیکولر قسم کاآدمی ،سہروردی صاحب بھی کم نہ تھے ،جس کانتیجہ یہ ہوا کہ اسلامی قانون کی تدوین کااور اسلامی نظام کے نفاذ کا جو کام اب شروع کیا جانا چاہئے تھااس سے ان دونو ں نے پہلو تہی کی ،اسلامی نظام کے نفاذ سے گریز کایہ عالم تھا کہ انہوں نے اسلامی نظریاتی کونسل ،جسے آئین کے مطابق ایک سال کے اندر اندر قائم ہو جانا چاہئے تھا ایک سال کہ مکمل ہونے پر قائم نہیں کی سال ختم ہونے سے ایک دن پہلے صرف اس کے صدر کاتقرر ہوا،دستورسازی کے بعد پہلاکام یہ تھا کہ ملک میں عام انتخا بات کرائے جائیں جو ملک میں اب تک نہیں ہوئے تھے ،حکومت انتخابات سے گریز کرنا چاہتی تھی مگر شدید عوامی دباؤ کے پیش نظرحکومت نے فروری ۹۵۹۱ء میں انتخابات کرانے کااعلان کیا،اس کے بعد سیاسی جماعتیں انتخابات کی تیاری میں لگ گئیں ۔انتخابات سے پہلے طریقہ انتخا ب کامسئلہ حل کر ناضروری تھامشرقی پاکستان کے بیشتر ارکان مخلوط انتخاب کے حق میں تھے ہی ،مغربی پاکستان کے کانگریسی لیڈ ر ڈاکٹر خان اوراسکند رمر زابھی اس کی وکالت میں پیش پیش تھے ،بہر کیف ۰۱ اکتوبر ۶۵۹۱ء کو قومی اسمبلی میں سہروردی صاحب نے مخلوط طریقہ انتخاب کابل پیش کیا، ان کی جانب سے اس بل کی طرف داری کی وجہ علاوہ انکے سیکولر ہونے کے یہ بھی تھی کہ وہ مخلو ط کابینہ کے وزیراعظم تھے ،ان کی وزارت عظمی ہندو ارکان اسمبلی کے دم سے قائم تھی اگر وہ بل کی حمایت نہ کر تے تو ہند و ان کی حمایت واپس لے لیتے اور یہ بات انہیں کسی قیمت پر گوارا نہ تھی ۔یہ بل جس طرح منظور کرایاگیااس کی مثا ل نہیں ملتی اسمبلی کے اجلاس کے دوران زیر بحث مسئلہ کو ملتوی کرکے یہ بل پیش کر دیاگیااور صرف ایک ڈیڑھ گھنٹہ بحث ہوئی اس میں بھی زیادہ ہندو ارکان کو بولنے کاموقع دیا گیاتھا،بل کا متن یہ تھا کہ مغربی پاکستان میں انتخاب جداگانہ طرز پر جبکہ مشرقی پاکستان میں مخلوط ہوں گے،بظاہر اگرچہ اس میں کچھ مفاہمت محسوس ہورہی تھی تاہم ۶ماہ بعد اپریل ۷۵۹۱ء میں اس بل میں ترمیم کرکے پورے ملک کے لئے مخلوط طریقۂانتخاب کی منظوری دے دی گئی۔مخلوط طریقۂ انتخاب کی خامی مخلوط انتخابات کی سب سے بڑی خامی یہ تھی کہ اس طریقہ کے بموجب انتخابات منعقد کرانے کا مطلب یہ تھاکہ مشرقی پاکستان میں جہاں ہندو کل آبادی کاتقریباً کا ایک چوتھائی تھے وہاں مسلمان امیدوار منتخب ہونے کے لئے ہندوؤں کے رحم وکرم پر ہوں،ہندو من حیث المجموع جسے ووٹ دیتے وہی منتخب ہوسکتاتھااور ظاہر ہے کہ انکاووٹ اسلام پسند جماعتوں کے بجائے ایسی جماعتوں یا امیدواروں کے حق میں جاتا جو اسمبلی میں ان کی مرضی کے تابع رہنا پسند کرتے ،ہندو بھی اسی فائدے کی امید میں مخلوط انتخاب کے حامی تھے اور وہاں کی سیکولر جماعتیں بالخصوص عوامی لیگ بھی اسی فائدے کی امید میں مخلوط انتخاب کے حامی تھے ۔بہرحال طریقۂانتخاب کے طے ہونے کے بعد تمام جماعتیں انتخابا ت کی تیاری میں لگ گئیں ،جو فروری ۹۵۹۱ء میں ہونے والے تھے۔یہ حکومت بھی ایک سال سے زیادہ نہ چل سکی ،اور وہ بھی اسکندر مرزاکے ہاتھوں ۸۱اکتوبر۷۵۹۱ ؁ء کواستعفی دینے پرمجبور ہوئے ،ان کیبعد ابراہیم اسماعیل(آئی آئی چندریگر)وزیراعظم بنے جو۸۱دسمبر ۷۵۹۱ ؁ء کو ہٹادئے گئیپھرملک فیروز خان نون نے دسمبر۷۵۹۱ ؁ء کو وزارت قائم کی وہ بھی زیادہ نہ چل سکی اور ۷اکتوبر کولگنے والے مارشل لاء میں ہٹا دئے گئے۔
۸۵۹۱ء کامارشل لاء اور دستور کی تنسیخ میجرجنرل اسکندرمرزاجو اِن دنوں صدر تھے انتخابات سے بہت خوفزد ہ تھے ،کیونکہ انہیں اندیشہ تھاکہ وہ انتخابات کے بعد صدر نہ بن سکیں گے جو انکو کسی قیمت پر منظور نہ تھا،دوسری طر ف ایوب خان بھی ایک عرصہ سے یہ خواہش دل میں لئے بیٹھے تھے چنانچہ ان دونوں نے مل کر اقتدار پر قبضہ کرنے کی سازش بنائی ،اور۷اکتوبر ۸۵۹۱ء کواسکندر مرزا نے دستور منسوخ کردیااور قومی اسمبلی توڑ دی ،حالانکہ اسی کہ بموجب وہ صدر تھے ، گویا کہ جس شاخ پر وہ آپ بیٹھے ہوئے تھے اسے خود اپنی ہی کلہاڑی سے کاٹ ڈالاتھا،اب اقتدار کی کرسی پر فائز رہنے کے لئے وہ ایوب خان کی مرضی کے محتاج ہوگئے ،ایوب خان نے اس صورت حال سے فائدہ اٹھایااور صرف ۰۲ دن بعد ۷۲اکتوبرکو انہیں برطرف کرکے ملک بدر کردیا۔
دستور کی منسوخی بہت بڑا المیہ تھا کیو نکہ یہ دستور بڑی مشکل سے ۹سال کی محنت کے بعد وجود میں آیا تھا،ایوب خان نے اس ملک پر ۴۴ماہ تک بغیر قانون کے حکمرانی کی انہوں نے برسراقتدار آنے کے بعد پارلیمانی جمہوریت کاڈھانچہ توڑ دیا،اسمبلی ختم ہو گئی ،سیاسی جماعتو ں پر پابند ی عائد کردی ، پریس اینڈ پبلیکیشنز آرڈیننس کے ذریعے اخبارات کی آزادی سلب کرلی۔
آئینی کمیشن کاقیام۴۴ماہ کے بعد مطلق العنانی کالیبل دور کرنے کے لئے ایوب خان نے ۷۱فروری ۰۶۹۱ء کوجسٹس شہاب الدین کی سربراہی میں ایک آئینی کمیشن قائم کیا جس نے ایک مبسوط سوالنامہ کے ذریعے ملک کے اہل الرائے حضرات اور سیاسی جماعتوں سے آئینی تجاویز طلب کیں ،اسلام پسند جماعتوں نے لاہور میں مجتمع ہوکر اس مسئلہ پر غور وخوض کیااور آئینی تجاویز مرتب کرکے کمیشن کو ارسال کردِیں ،کمیشن نے اپنی آئینی سفارشات صدرایوب کو پیش کردیں مگر وہ چونکہ انکی مرضی کے موافق نہ تھیں لہذا مسترد کر دی گئیں ،پھردوسرا آئینی مسودہ تیار کرایاگیا اور اسے بذریعہ آرڈیننس نافذ کردیاگیا،یہ آئین ۶۵۹۱ء کے آئین کے تمام اسلامی اوصاف سے خالی تھا،اگرچہ قرار داد مقاصد کو اس کی بنیادقرار دیاگیامگر اس پر تعمیر کیاگیاآئین بالکل سیکولرانہ تھا۔
آئین(عائلی قوانین ) کانفاذ اور تیسری دستور ساز اسمبلی یہ آئین یکم مارچ ۲۶۹۱ء کو نافذالعمل ہوا جس کے تحت ۸۲مارچ ۲۶۹۱ء میں انتخابات منعقد ہوئے، اس کے تحت پارلیمانی نظام کو ختم کر کے صدارتی نظام کو نافذ کیاگیالیکن یہ آئین نہ صدارتی ثابت ہوا اور نہ ہی پارلیمانی ۔
۸جون ۲۶۹۱ء کو راولپنڈی میں تیسری قومی اسمبلی کاپہلااجلاس منعقد ہوا ، مولو ی تمیزالدین اسپیکر ،چوہدری محمد افضل چیمہ ڈپٹی اسپیکراور ابو القاسم سیکنڈ ڈپٹی اسپیکر مقرر ہوئے ،یہ تیسری اسمبلی ۷جون ۵۶۹۱ء میں اختتام پذیر ہوئی۔
چوتھی دستور ساز اسمبلی جنوری۵۶۹۱ء میں ایوب خان نے صدارتی انتخابات کا اعلان کیا،ان کا خیال تھاکہ چونکہ صدر کا انتخاب بنیادی جمہوریت کے ممبروں کے ذریعے ہونا ہے جن کی تعداد ملک بھر میں صرف ۰۸ہزار ہے لہذا وہ دھونس کی قوت استعمال کرکے آسانی سے دوبارہ صدر منتخب ہوجائیں گے ،ان انتخابات میں حزب اختلاف نے مادرِ ملت فاطمہ جناح کو اپنا امید وار بنا کر کھڑا کیا ،مادر ملت ایک ضعیف العمر خاتون ہونے کے باوجود ایک مطلق العنان حکمراں کے مقابلے میں جمہوریت کی علمبردار تھیں مزید برآں وہ قائد اعظم کی ہمشیر ہ بھی تھیں اِسی بنا پرپوری قوم ان کی پشت پناہی کے لئے کھڑی ہوگئی ،مگر ووٹ دینے کااختیار عوام الناس کی بجائے بنیادی جمہوریت کے ارکان کے ہاتھ میں تھا،اس لئے ان پر اثر انداز ہوکر ایوب خان ووٹ حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے،اوردوبارہ صدر بن گئے۲۱جون ۵۶۹۱ء میں چوتھی اسمبلی وجود میں آئی۔
گول میز کانفرنس اور اس کی سبوتاژکاری بحالئجمہوریت کیلئے حزبِ اختلاف کی جماعتوں کاایک نیااتحاد قائم ہوا جس کانام (P,D,M) تحریکِ جمہوریتِ پاکستان رکھاگیا،جس کے تحت ۰۲نومبر ۸۶۹۱ء سے ملک بھر میں ایوب خان کے خلاف تحریک شروع کر دی گئی ، شروع میں تو ایوب خان نے اس تحریکِ کو قابل التفات نہ سمجھا، یہاں تک کہ تحریکِ جمہوریتِ پاکستان کی اپیل پر ۴۱فروری ۹۶۹۱ء کو ۸ نکاتی مطالبے میں ملک گیر ہڑتال کی گئی جو کہ اتنی کامیاب تھی کہ پورے ملک پر قبرستان کاسناٹا چھایا ہوا تھا ،پھر ایوب خان کے خلاف شدید قسم کے مظاہرے شروع کر دئیے ،یہ صورتحال دیکھ کر وہ اس قدر دل برداشتہ ہوئے انہوں نے ۱۲فروری ۹۶۹۱ء کوایک نشری تقریر کی جس میں حزبِ اختلاف کے مطالبات پر غور کرنے کے لئے گول میز کانفرنس منعقد کرنے کااعلان کیا،اور صدارت کے منصب سے دستبردار ہونے کااعلان کیا۔
مگرسیاستدانوں نے خصوصا لسانی جماعتوں کے سربراہان اور سیکولر سربراہان بشمول جنرل یحیی خان نے ان مذاکرات کو ناکام کرنے کے لئے مختلف داؤ کھیلے، اوربالآخران مذاکرات کو ناکام کروا کر دم لیا۔
مجیب الرحمن بانئ موجودہ بنگلہ دیش اس وقت جیل میں تھے ،انہیں سیاستدانوں کے دباؤ پر جیل سے نکال کر مذاکرات کی میز پربیٹھایااور ان کو انکے چھ نکاتی فارمولے پرجمانے کے لئے خود سیاستدانوں نے اور خاص طور پر جنرل یحیی خان نے تدبیریں کیں اور انہوں نے خصوصی طور پر اسے اپنے فارمولے پر جمنے کی ترغیب دی ،ورنہ مجیب کو تلہ سازش کیس میں غداری کے الزام میں اپنی سزائے موت کا یقین ہوچکا تھا وہ معافی نامہ لکھ کردینے اور سیاست سے ہمیشہ کے لئے کنارہ کش ہونے کے لئے تیار ہوگیاتھا ۔
بالآخر یہ کانفرنس بری طرح ناکام ہوئی ایوب خان باقی جماعتوں کے ۸ نکات ماننے کے لئے تیار ہوگئے تھے مگر ان سیاستدانوں کو خطرہ تھاکہ اس سے۶۵ء کا اسلامی دستور آجائے گا جسے وہ کسی قیمت پرنہیں چاہتے تھے نتیجتاً انہوں نے مجیب کو اسکو۶ نکاتی فارمولے پر جمایامگر ایوب خان نے بڑی استقامت کامظاہرہ کرتے ہوئے اس کے ماننے سے انکار کر دیاکیونکہ یہ ملک کے خلاف ایک سازش تھی،جس کا مقصد ملک کو دو پارچوں میں تقسیم کرناتھا۔ کانفرنس کی ناکامی سے ملک کو شدید نقصان پہنچا، ایوب خان کی دستور ساز اسمبلی ۵۲مارچ ۹۶۹۱ء تک رہی
(P.D.M)
تحریک جمہوریت پاکستان کا۸ نکاتی فارمولہ حزبِ اختلاف کی جماعتوں نے ایک آٹھ نکاتی فارمولہ پیش کیا تھا جس میں سے چھ نکات تو ضمنی اہمیت کے حامل تھے مثلاًدفعہ ۴۴۱ کاختم کرنا،مزدورں کو ہڑتال کاحق دینا پریس کی بحالی وغیرہ ، البتہ دو نکات بنیاد ی نوعیت کے حامل تھے،
۱۔۔۔ملک میں مروّجہ صدارتی طرز حکومت ختم کرکے پارلیمانی نظام قائم کیاجائے اور دوسرایہ کہ
۲۔۔۔ بنیادی جمہوریتوں کے ارکان کے ذریعے اسمبلی منتخب کرنے کاطریقہ ختم کرکے بالغ رائے دہی کانظام واپس لایاجائے۔
مجیب کے پیش کردہ ۶نکات ۱۔۔۔دستور قرار داد لاہور کی بنیاد پر صحیح معنوں میں پاکستان کا وفاق قائم کرے جس میں پارلیمانی نظام حکومت اور مقننہ کو بالادستی حاصل ہو ،یہ مقننہ بالغ رائے دہی کی بنیاد پر براہ راست منتخب کی جائے۔
واضح ہوکہ قرار داد لاہور کے بموجب پاکستان کا قیام جداگانہ دوآزاد اور خود مختا ر ریاستوں کی شکل میں عمل میں آناچاہئے تھا جن میں سے ایک ریاست شمال مٖغربی علاقے یعنی سرحد ، پنجاب ،سندھ اور بلوچستان پر مشتمل ہوتی اور دوسری ریاست مشرقی علاقے یعنی بنگال اور آسام پر۔
۲۔۔۔وفاقی حکومت کو صرف دو معاملات میں اختیارات حاصل ہوں ،دفاع اور امورخارجہ ،باقی تمام امور وفاق کی تشکیل کرنے والی ریاستوں کی تحویل میں ہوں ۔
۳۔۔۔کرنسی کے بارے میں ان دو میں سے کوئی ایک اقدام کیاجائے،
(
الف) دونوں بازوؤں کے لئے دوجداگانہ اور آزاد ی سے قابل مبادلہ نظا م ہوئے زررائج کئے جائیں ،مشرقی پاکستان کی کرنسی پرڈھاکہ اور مغربی پاکستان کی کرنسی پر لاہور لکھاہو ۔
(
ب) پورے ملک کے لئے کرنسی کا ایک ہی نظام ہو لیکن دستور میں ایسی مؤثر دفعات ہونی چاہئیں جو سرمائے کو مشرقی پاکستان سے مغربی پاکستان جانے سے روک سکیں ،مشرقی پاکستان کے بینکوں میں علیحدہ رقم محفوظ ہو اور مشرقی پاکستان کے لئے علیحدہ مالیاتی پالیسی اختیار کی جائے۔
۴۔۔۔ٹیکس لگانے اور محا صل جمع کرنے کے اختیارات وفاق کی تشکیل کرنے والی ریاستوں کو حاصل ہوں ،وفاقی مرکز کو ٹیکس لگانے کااختیار نہ ہو ،ریاستیں جو ٹیکس وصول کریں گے ان میں سے وفاق کے اخراجات چلانے کے لئے مر کز کو ایک خاص فیصد اداکی جائے گی ،
۵۔۔۔(الف ) دونو ں بازو جس قدر زر مبادلہ کمائیں اس پر علیحدہ علیحدہ حسابات ہونے چاہئیں ،
(
ب) مشرقی پاکستان جو زر مبادلہ کمائے گا اس پر مشرقی پاکستان جو زر مبادلہ کمائے گا اس پر مشرقی پاکستان کو کنٹرول ہوگا،یہی اختیار مغربی پاکستان کی حکومت کو اپنے زرمبادلہ پرہوگا،
(
ج)وفاقی حکومت کی زر مبادلہ کی ضروریات دونوں ریاستوں کی طرف سے مساوی طور پر طے شدہ نسبت سے پوری کی جائیں ۔
(
د) ملکی مصنوعات ایک بازو سے دوسرے بازو تک کسی ڈیوٹی کے بغیر آزاد انہ منتقل کی جاسکیں گی۔
(
ھ)دستور وفاقی حکومتو ں (یعنی مغربی اور مشرقی پاکستان ) کو یہ اختیار دے گا کہ وہ ممالک خارجہ سے لین دین کے تعلقات وتجارتی سفارتیں قائم کرسکیں گے،وہ ان کے ساتھ معاہدات میں شریک ہونے کے بھی مجاز ہوں گے،
۶۔۔۔مشرقی پاکستان کے لئے علیحدہ ملیشیا فوج قائم کی جائے گی ۔
نوٹ 
جنرل یحیی خان اور لیگل فریم ورک۱۳مارچ ۹۶۹۱ء کو یحیی خان نے زمام اقتدار اپنے ہاتھ میں لی اور۸۲ نومبر ۹۶۹۱ء کو یہ اعلان کیاکہ وہ ۵ اکتوبر ۰۷۹۱ء کو انتخابات کرائیں گے ۔البتہ بعد میں اس تاریخ میں ۷ دسمبر تک توسیع ہوگئی ،انہوں نے انتخابات کے لئے جناب جسٹس عبدالستار کی سربراہی میں ایک الیکشن کمیشن بھی قائم کیا،کمیشن نے انتخابات کی تیاریاں شروع کر دیں ، یحیی خان نے انتقالِ اقتدار کے لئے قومی اسمبلی پر یہ ذمہ داری عائد کی کہ وہ ملک کے لئے پہلے ایک نیا آئین بنائے اور یہ آئین ۰۲۱ دن کے اندر مکمل کرلے ، اگر وہ اس مدت میں دستور نہ بناسکی تو اسمبلی خودبخود ٹوٹ جائے گی، ۸۲ نومبرکے اس اعلان میں انہوں نے بہت سی باتیں طے کی تھیں، مگر ایک انتہائی اہم بات غیر طے شدہ چھوڑ دی تھی ،وہ صوبائی خود مختاری کی حدود کاتعین تھا، مجیب الرحمن کے چھ نکات کو مشرقی پاکستان میں جو غیر معمولی مقبولیت حاصل تھی اس صاف ظاہر تھا کہ یہ ایک اہم مسئلہ بنے گا۔ 
تین چار ماہ بعد یحیی خان نے ۸۲ مارچ ۰۷۹۱ء کوایک فرمان کے ذریعے دستور بنانے والوں کے لئے کچھ رہنمااصول مقرر کئے اور شرط یہ عائد کی کہ دستور ساز اسمبلی ملک کادستور ان راہنمااصولوں کے تحت رہ کر بنائے گی
یہ رہنمااصول لیگل فریم ورک آرڈرمجریہ۰۷۹۱ء کہلائے گااس میں انہوں نے صوبائی خود مختار کی حدود کا بھی کسی قدر تھا۔
۱۔۔۔پاکستان کانام اسلامی جمہوریہ پاکستان ہوگا،
۲۔۔۔اسلامی نظریہ کاتحفظ کیاجائے گااور سربراہ مملکت مسلمان ہوگا،
۳۔۔۔انتخابات بالغ رائے دہی کے ذریعے ہوا کریں گے۔
۔۔۔(ب) بنیادی حقوق کی ضمانت دی جائے گی۔
۔۔۔(ج)عدلیہ پوری طرح آزاد ہوگی۔
۴۔۔۔صوبوں کو زیادہ سے زیادہ خود مختاری دی جائے گی ،مگر مرکز کے پاس قانون سازی ،انتظامی ومالیاتی اختیارات ، دفاع وامور خارجہ کے محکمے اور ملک کے جغرافیائی اتحاد کو برقرار رکھنے والے اختیارات ہوں گے۔
۵۔۔۔ایک مقررہ مدت کے اند ر صوبوں اورعلاقوں کے درمیان ناہمواریاں دور کی جائیں گی۔
۶۔۔۔(الف)مسلمانوں کو قرآن وسنت کے مطابق زندگی گذارنے کے لائق بنایاجائے گا۔
۔۔۔(ب) اقلیتوں کو مکمل مذہبی آزادی حاصل ہوگی ،کوئی قانون قرآن وسنت کے خلاف نہیں بنایاجائے گا۔
۔۔۔( ج) مسلمانوں کے قرآن واسلامیات کی تعلیمات کی سہولتیں فراہم کی جائیں گی۔
۔۔۔(د) اسلام کے اخلاقی معیارات کی پابندی کی جائے گی۔
۔۔۔(ہ) اسلام کے اخلاقی نظام کو فروغ دیاجائے گا۔
بلاشبہ یہ نکات بہت عمدہ تھے مگر ان پر عمل کر انے کی کوئی تدبیر نہیں کی گئی۔
۲۲ نکاتی معاشی اصطلاحات کاخاکہ علماء کی طرف سے سوشلزم کے کفر ہونے کا فتوی صادر ہوا تو بعض کمزور عقائد کے حضرات اس پریشانی میں مبتلاہوگئے کہ اگر سوشل ازم کفر ہے جس میں معاشی ترقی ہے تواسلامی نظام میں غریبوں کی موجودہ مشکلات کا حل کیا ہے؟اس چیلنج کاجواب دیتے ہوئے خطیب پاکستان حضرت مولانا احتشام الحق تھانو ی ؒ نے جو ن ۰۷۹۱ء کو علماء حق کا ایک کنونشن بلایا،کنونشن میں حاضر علماء نے اسلامی معاشی اصطلاحات کے متعلق جامع خاکہ تیار کیا ان اصلاحات پر ۸۱۱ علماء کے دستخط ثبت تھے ،جن میں خطیب پاکستان ،مفتی اعظم پاکستان حضر ت مولانا مفتی محمد شفیع صاحب ؒ ،حضرت مولانا ظفر احمد عثمانی ؒ ،حضرت مولانااطہر علی ، حضرت مولانا خیر محمد جالندھری صاحب،حضرت مولاناادریس کاندھلوی صاحب ،حضرت مولانا مالک کاندھلوی صاحب، حضرت مولانا مفتی محمد رفیع عثمانی صاحب وغیرہ قابل ذکر ہیں۔
مشرقی پاکستان کو علیحدہ کرنے کی سازش پاکستان روز اول سے ہی پوری دنیاکے کفارکی آنکھوں میں کانٹے کی طرح چبھ رہاتھا، اور اسے کمزور کر نے یاختم کرنے کی پوری کوششیں جاری تھیں،امریکہ ہویاروس ،بھارت ہو یااسرائیل سب اس کے دشمن تھے ۔
مشرقی پاکستان کو مغربی پاکستان سے علیحدہ کرنے میں بیرونی سازشوں کے علاوہ ،ایک بڑا حصہ خود ناعاقبت اندیش پاکستانیوں کاتھا،ان تمام بیرونی واندرونی سازشوں کاخلاصہ لکھاجاتاہے۔ 
بیرونی سازشیں مشرقی پاکستان کو مغربی پاکستان سے علیحدہ کرناان معاملات میں سے تھا جس پر امریکہ اورروس کے مشترکہ مفادات وابستہ تھے ،گویا الکفر ملۃ واحدۃ کامظہر تھا،روس کااس میں مفاد یہ تھا ،کہ اس سے پاکستان کمزور ہوگا ،اور پاکستان کو کمزور سے کمزور تر کرنا روس کی توسیع پسند انہ پالیسی کے لئے ضروری تھا کیونکہ اس کی پالیسی افغانستان اور پاکستان کو مغلوب کرکے بحیرۂ ہند تک رسائی حاصل کرناتھا،اس کے علاوہ جولائی ۱۷۹۱ء کو یحیی خان نے امریکہ کو چین کے قریب لانے کی جوکوشش کی تھی اور پاکستان اس میں بطور راہداری کے استعمال ہوا تھااس پر بھی روس کو غصہ تھا۔
امر یکہ اس وجہ سے مشرقی پاکستا ن کا دشمن بنا کیونکہ وہ چین کے گرد امریکہ کے حلیف یا نیم حلیف ممالک کا جو فوجی حصار قائم کرنا چاہتاتھامشرقی پاکستان اس میں حارج تھا۔علاوہ ازیں ۲۶۹۱ء کی چین بھارت جنگ میں بھارت کو اپنے آسام کے محاذ جنگ پر کمک بھیجنے میں بڑی دشواری پیش آئی کیونکہ بھارت کو آسام سے ملانے والی ریلوے لائن مشرقی پاکستان سے گزرنے کی وجہ سے اب اس کے تصرف میں نہیں رہی تھی ، اسے دشوار گزار راستے سے کمک بھیجنی پڑتی تھی ،چین کے خلاف مشرقی پاکستان کی اس فوجی اہمیت کی بناپر جب سے امریکہ اور بھارت اسے پاکستان سے علیحدہ کرنے کے خواہشمند تھے ، اس جنگ کے اختتا م پر امریکہ نے مشرقی پاکستان کے لیڈروں کو علیحدہ ہونے کی ترغیب شروع کردی تھی ،اس سازش کاانکشاف اور اس پر برہمی کااظہار خود خواجہ ناظم الدین ( سابق وزیر اعظم پاکستان )نے کیاتھا کیونکہ اس سلسلہ میں امریکی حکام نے خود انہیں آلۂ کاربنانے چاہاتھا،اس کہ باوجود کہ ۱۷۹۱ء میں امریکہ نے چین سے دوستی کی کوششیں شروع کر دیں تھیں،البتہ مشرقی پاکستان کے معاملے میں اس نے اپنی پالیسی تبدیل نہیں کی تھی۔ 
اندرونی سازشیں ان تمام طاقتوں نے پاکستان کو دولخت کرنے کے لئے تعصبات کو استعمال کیا،مشرقی پاکستان میں اس کے لئے چنداں محنت کی اس لئے ضرورت نہ تھی کیو نکہ وہاں عوامی لیگ کی شکل میں ایک مضبوط صوبہ پرست قیادت مید ان ساز گار کررہی تھی جس کا موقع بھی مغربی پاکستا ن کے بعض لیڈروں کی زیادتیوں نے ہی دیاتھا ،عوامی لیگ کو ہلاشیری دینے کی اور مدد کی یقین دہانی کی ضرورت تھی جو ان طاقتوں نے بخو بی انجام دی ،مزید مغر بی پاکستان میں ایک ایسی طاقت پیداکرنے کی ضرورت تھی جو جلتی پر تیل کاکام دے ،اس لئے بھٹو کاانتخاب کیاگیا جوان کی توقعات پر پورے اترے ، کتنی جگہ پر کیسے کیسے استعمال ہوئے یہ ایک لمبی داستان ہے ،
جنرل یحیی خان اپنے اقتدار کے نشہ کو باقی رکھنے کی فکر میں استعمال ہوا،وگرنہ ایک موقع پر مجیب خان نہ صرف یہ کہ اپنے چھ نکات سے دستبردار ہوگیاتھابلکہ مفاہمت کے لئے تیار تھا مگراس موقع کافائدہ نہیں اٹھایاگیا۔مزید برآں بھٹو اور یحیی خان نے مغربی پاکستان کے لو گوں کی یہ ذہن سازی کرنے کی کوشش کی کہ مشرقی پاکستان کاعلیحدہ ہوجانا ہی بہترہے۔
۱۷۹۱ء کا مارشل لاء اور مولاناظفر احمد انصاری کی مفاہمت کرانے کی کوشش۰۲ دسمبر ۱۷۹۱ء کو یحیی خان نے مارشل لاء کااقتدار ذوالفقار علی بھٹو کے سپردکردیا،ان کے سربراہ بننے کے بعد بھی ملک کی بحالی کا ایک آپشن موجود تھاکہ وہ مجیب الرحمن سے صلح کر لیتے ،اگرمجیب الرحمن مان جاتے تو مشرقی پاکستان پر بھار ت کے تسلط کے لئے تمام قسم کاقانونی اوراخلاقی جواز ختم ہوجاتا، اور اسے مشرقی پاکستان سے نکلنا پڑتا مگر انہوں نے تصفیہ سے گریز کیااگرچہ مولاناظفر احمد انصاری نے اس کی ہر ممکن کوشش کرلی مگر فائدہ ندارد۔
اس سے بڑی زیادتی یہ ہوئی کہ ۸جنوری ۲۷۹۱ ء کو مجیب الرحمن کو رہاکرکے ڈھاکہ بھیج دیا، ایسے خطرناک وقت میں جب کہ کئی لاکھ غیر بنگالی مشرقی پاکستان میں پھنسے ہوئے تھے ان کو بلاکسی شرط کے چھوڑ دیناان پاکستانیوں کے ساتھ ظلم تھا۔
بعض لوگوں کا خیال تھا کہ مشرقی پاکستان کے سقوط سے مجیب الرحمن خود بہت دلبرداشتہ ہوگیا تھا کیونکہ اب مشرقی پاکستان بھارت کے زیر تسلط جاچکا تھا یہ بات خود مجیب الرحمن کو بھی پسند نہ تھی اور نہ وہ یہ چاہتاتھابلکہ اس کی شدید خواہش تھی کہ بھٹو مفاہمت پر راضی ہوجائے ،وہ بھٹو کو وزیر اعظم بنا کر خود ایک بے ضرر صدر بننے پر بھی راضی ہوگیاتھامگر بھٹو راضی نہ ہوا۔
اسلامی سربراہ کانفرنس کا انعقاد 
۶۲ دسمبر ۰۷۹۱ء کو کراچی میں مسلمان ملکوں کے وزرائے خارجہ کی کانفرنس کا آغاز ہوا پھر ۲۲فروری ۴۷۹۱ء کو لاہور کے پنجاب اسمبلی ہال میں عالم اسلام کے سربراہوں کی تاریخی سہ روزہ کانفرنس کا آغاز ہوا،اس کانفرنس میں ۷۳ اسلامی ممالک کے سربراہ اور اعلی نمائندے شریک ہوئے جن میں شریک سربراہان مملکت کی تعداد ۴۲تھی ،کانفرنس ہال میں ۱۴وفود موجود تھے ،جن میں سے ۴ وفود کسی ملک کے نہیں بلکہ مسلمانوں کی مختلف تنظیموں ،تنظیم آزادئفلسطین ،عرب لیگ ،موتمرعالمی اسلامی اور رابطۂعالم اسلامی کے وفود تھے ،کانفرنس کا صدر پاکستان کے وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹوکو منتخب کیاگیا،کانفرنس سے پہلے وزیراعظم پاکستان نے بنگلۂدیش کو تسلیم کرنے کااعلان کیا،اس اعلان کے ذریعے پاکستان اپنے مشرقی حصے سے ہمیشہ کے لئے دستبردار ہوگیا،۴۱مئی ۷۰۰۲ء کو بھی اسلام آباد میں اسلامی وزرائے خارجہ کانفرنس شروع ہوئی تھی۔ 
پانچویں دستور ساز اسمبلی اور۳۷۹۱ء کے متفقہ دستورکی منظوری 
۴۱اپریل ۲۷۹۱ء میں ذوالفقار علی بھٹو نے زمام اختیار سنبھال کر پانچویں دستور ساز اسمبلی کی تشکیل دی جس کے اسپیکر چودھر ی فضل الہی مقر ر ہوئے ،اس سے پہلے بھٹو صاحب صدر تھے، 
۷۱اپریل ۲۷۹۱ء کودستورسازی کے لئے محمد علی قصوری کی قیادت میں ایک۵۲ رکنی کمیٹی تشکیل دی گئی جس نے دستور کا ایک مسودہ تیار کیاجو ۲فروری ۳۷۹۱ء کواسمبلی میں پیش ہوا جس کو اسمبلی میں منظور کرلیا گیااور ۲۱اپریل ۳۷۹۱ کووزیراعظم نے دستخط کئے اور ۴۱اگست ۳۷۹۱ء سے باقاعدہ نافذکردیاگیاجو آج تک نافذ ہے۔یہ پانچو یں اسمبلی ۰۱جنوری ۷۷۹۱ء تک قائم رہی ۔
۰۱؂پاکستان کے دساتیر ا یک طائرانہ نظرمیں پاکستان بننے کے بعد سب سے پہلاقانون جو نافذ ہوا وہ توگورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ ۵۳۹۱ہی تھا ۔پاکستان کااپنا سب سے پہلا دستور جو بنایا گیا وہ پاکستان بننے کے ۹ سال بعد۶۵۹۱ء میں نافذ ہو ااور نفاذ کے صرف ۲ ہی سال کے بعد اسکندر مرزا نے اسے معطل کردیا،پھر ۰۶۹۱ء میں ایوب خان نے نیا دستور بنانے کے لئے ایک کمیشن قائم کیاجس نے ایک مسودہ تیا ر کیااس کو ایوب خان نے مارچ۲۶۹۱ء کو نافذکردیاجو کہ ۹۶۹۱ء تک رہاجب ایوب خان نے حکومت یحی خان کے حوالے کی۔۷۱اپریل ۲۷۹۱ء کودستورسازی کے لئے محمد علی قصوری کی قیادت میں ایک۵۲ رکنی کمیٹی تشکیل دی گئی جس نے دستور کا ایک مسودہ تیار کیاجو ۲فروری ۳۷۹۱ء کواسمبلی میں پیش ہوا جس کو اسمبلی میں منظور کرلیا گیااور ۲۱اپریل ۳۷۹۱ کووزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو نے اس پر دستخط کئے اور ۴۱اگست ۳۷۹۱ء سے باقاعدہ نافذکردیاگیاجو آج تک نافذ ہے۔
۱۱؂۹۲مئی ۴۷۹۱ ؁ء کو ربوہ ریلوے اسٹیشن پر نشتر میڈیکل کا لج ملتان کے طلباء پر آہنی سلاخوں ، لوہے کی تاروں کے بنائے ہوئے کوڑوں آہنی پنجوں سے حملہ کیاگیا۔اس واقعہ کی تفصیل یہ ہے کہ ایک ہفتہ پہلے یہ لڑکے تفریحی سفر پر پشاور کے لئے جاتے ہوئے چناب ایکسپرس سے ربوہ اسٹیشن پراترکر ایک اپنے کلاس فیلو قادیانی طلباء سے ہنسی مذاق کررہے تھے ۔ قادیانیوں کا اس زمانے میں معمول تھاکہ وہ ربوہ سے تمام گزرنے والی ٹرینوں پر مسافروں میں اپناتبلیغی لٹریچر تقسیم کرتے تھے اس دوران طلباء میں بھی انہوں نے لٹریچر تقسیم کیا ، اس سے قبل طلباء کانشتر میڈیکل کالج ملتان میں انتخاب ہوا تھا۔ ایک قادیانی اس میں امیدوار تھا، مسلمان طلباء نے قادیانیت کی بنیاد پر اس کی مخالفت کی تھی۔
قادیانیت کے خلاف مسلمان طلباء کی ذہن سازی ہوئی تھی۔اس لئے اس قادیانی لٹریچر کے تقسیم ہوتے ہی مسلمان طلباء نے غم وغصہ کااظہار کیا ، قادیانیوں نے اس پر قریب کے گراؤنڈ میں کھیلتے قادیانی نوجوانوں کوبلالیاوہ ہاکیوں سمیت پہنچ گئے ، تکرار تک معاملہ پہنچ گیامگرٹرین کی روانگی کے سبب اس وقت تصادم نہ ہوا۔ قادیانی لڑکوں نے ان طلباء کی واپسی کاپروگرام معلوم کروایا۔ ہفتہ کے بعد جب وہ اسی ٹرین سے واپس ہوئے تو سرگودھا سے ہی ان کے ڈبے میں قادیانی نوجوان خدام الاحمدیہ نیم فوجی تنظیم کے رضاکار سوار ہوگئے۔جب یہ گاڑی نشتر آباد پہنچی تو وہاں کے قادیانی اسٹیشن ماسٹر نے بذریعہ ریلوے فون ربوہ کے قادیانی اسٹیشن ماسٹر کواطلاع دے دی کہ طلباء کاڈبہ آخرسے تیسراہے۔ نشتر آباد لالیاں سے بھی قادیانی نوجوان اس ڈبہ میں سوار ہوئے ، حالانکہ یہ ڈبہ ریزرو تھاجب گاڑٰ ربوہ اسٹیشن پر پہنچی تو پہلے سے موجود ہ قادیانی سربراہ مرزاطاہر کی قیادت میں بڑی بے دردی سے مسلمان طلباء کوماراپیٹ کر زخمی کیا،یہاں تک کہ طلباء لہولہان ہوگئے۔ غنڈوں نے ان کاسب سامان بھی لوٹ لیا۔ جب تک قادیانی غنڈوں کا ایکشن مکمل نہیں ہوا اس وقت تک قادیانی اسٹیشن ماسٹر نے ٹرین کوربوہ اسٹیشن سے جانے نہ دیا۔بتلخیص از’’ تحریک ختم نبوت ۴۷۹۱ء کی کہانی مولاناتاج محمود صاحب کی زبانی‘‘
قومی اسمبلی میں حزب اختلاف کی قرار داد؛اس سلسلہ میں مجلس عمل کے پارلیمانی رہنماؤں نے ذیل کاخط اپنے دستخطوں سے سپیکرکو لکھا؛
جناب سپیکر صاحب قومی اسمبلی پاکستان۔ جناب مکرم 
ہم درج ذیل تحریک پیش کرنے کی اجازت چاہتے ہیں ؛ ہرگاہ یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ مرزاغلام احمد قادیانی نے خاتم النبین حضرت محمد ﷺ کے بعد اپنے نبی ہونے کا دعوی کیاہے۔اور یہ کہ جھوٹ پر مبنی اس کادعوی نبوت قرآن کریم کی بیشمار آیات کو(نعوذ باللہ ) جھوٹا ثابت کرنے کی کوششیں او ر تر ک جہاد کی تلقین اسلام کے اہم اور بنیادی ارکان سے اس کی کھلی غداری کے مترادف ہیں۔اور یہ کہ مسلمانوں کے اتحاد ملی کوتباہ کرنے اور اسلام کو ایک جھوٹا مذہب ثابت کرنے کی غرض سے وہ سراسر استعمار کی تخلیق تھا۔ اور یہ کہ تمام امت مسلمہ کا اس امر پر اتفاق ہے کہ مرزا غلام احمد کے پیروکار خواہ اس کی نبوت پر ایمان رکھتے ہوں یااسے کسی بھی شکل میں ایک مصلح یامذہبی رہنما مانتے ہوں ، دائرہ اسلام سے خارج ہیں۔اور یہ کہ اس کے پیروکار ، خواہ کسی بھی نام سے موسوم ہوں اپنے آپ کو مسلمانوں ہی کاایک فرقہ ظاہر کرتے ہوئے ان میں رہ کر اندرونی اور بیرونی طور پر تخریبی سرگرمیوں میں مصروف عمل ہیں۔ اور یہ کہ مکہ مکرمہ کے مقدس شہر میں ۶سے ۰۱ اپریل تک رابطہ عالم اسلامی کے تحت منعقدہ دنیائے اسلام کی مختلف تنظیموں کے اجلاس نے (جس میں دنیا کے ہر حصہ سے ۰۴۱ مسلمان تنظیموں اور اداروں نے شرکت کی ) متفقہ طور پر تسلیم کیاکہ قادیانیت اسلام اور دنیائے اسلام کے خلاف یکسر تخریبی تحریک ہے جو کذب بیانی اور فریب دہی سے اپنے آپ کو اسلام ہی کا ایک فرقہ ظاہر کرتی ہے۔لہذا یہ اسمبلی اس امر کا اعلان کرتی ہے کہ مرزا غلام احمد کے پیروکار خواہ وہ کوئی سا نام بھی رکھتے ہوں مسلمان نہیں اور یہ کہ نیشنل اسمبلی میں سرکاری طور پر ایک بل پیش کیاجائے جس سے آئین میں مناسب ترمیم ہو۔ انہیں اس ترمیم کی رو سے اسلامی جمہوریہ پاکستان میں بطور غیرمسلم اقلیت اپنے حقوق و مفادات کا تحفظ حاصل ہو ۔
دستخط کنندگان؛۱۔مولانامفتی محمود ۔۲۔مولاناعبدالمصطفی الازہری ۔۳۔مولاناشاہ احمد نورانی ۔۴۔پروفیسر غفور احمد۔۵مولاناسید محمد علی رضوی ۔۶۔مولاناعبدالحق اکوڑہ خٹک ۔ ۷۔ چودھری ظہورالہی ۔۸۔سردارشیربازخان مزاری ۔۹۔مولاناظفراحمد انصاری ۔۰۱۔مسٹرعبدالحمید جتوئی۔۱۱۔صاحبزادہ احمد رضاخان قصوری۔ ۲۱۔مسٹر محمد اعظم فاروقی ۔۳۱۔مولاناصدرالشہید۔۴۱۔ مولانانعمت اللہ۔۵۱۔مسٹر عمرخان۔۶۱۔مخدوم نورمحمد۔۷۱۔مسٹرغلام فاروق ۔۸۱۔ مسٹرمولابخش سومرو۔۹۱۔ سردارشوکت حیات خان۔۰۲۔ مسٹرعلی احمد تالپور ۔۱۲۔راؤخورشید علی خاں۔۲۲۔رئیس عطامحمد خان۔
۳۱؂جوشخص محمد ﷺ جو آخری نبی ہیں ‘ کے خاتم النبیین ہونے پر قطعی اور غیر مشروط طور پر ایمان نہیں رکھتایا جو محمدﷺ کے بعد کسی بھی مفہوم میں یاکسی بھی قسم کا نبی ہونے کا دعوی کرتاہے یا جوکسی ایسے مدعی کونبی یادینی مصلح تسلیم کرتاہے وہ آئین یاقانون کی اغراض کے لئے مسلمان نہیں ہیں۔
۴۱؂ترمیم کابل؛ وزیر قانون عبدالحفیظ پیرزادہ نے اعلان کیا کہ قومی اسمبلی کے کل ایوان پر مشتمل خصوصی کمیٹی متفقہ طور پر طے کرتی ہے کہ حسب ذیل سفارشات قومی اسمبلی کوغور اور منظوری کے لئے بھیجی جائیں،کل ایوان پر مشتمل خصوصی کمیٹی اپنی رہنماکمیٹی اور ذیلی کمیٹی کی طرف سے اس کے سامنے پیش کردہ قرار دادوں پر غور کرنے اور دستاویزات کا مطالعہ کرنے اور گواہوں بشمول سربراہان انجمن احمدیہ ، ربوہ اور انجمن احمدیہ اشاعت اسلام لاہور کی شہادتوں اور جرح پر غور کرنے کے بعد متفقہ طور پرقومی اسمبلی کوحسبِ ذیل ترمیم کی جائے۔(ا)کہ پاکستان کے آئین میں حسب ذیل ترمیم کی جائے۔(ب)دفعہ ۶۰۱(۳)میں قادیانی جماعت اور لاہوری جماعت کے اشخاص (جواپنے آپ کو احمدی کہتے ہیں )کاذکرکیاجائے۔(دوم)دفعہ ۰۶۲ میں ایک نئی شق کے ذریعے غیرمسلم کی تعریف کی جائے ۔ مذکورہ بالاسفارشات کے نفاذ کے لئے خصوصی کمیٹی کی طرف سے متفقہ طور پر منظور شدہ مسودہ قانون منسلک ہے۔(ج)کہ مجموعہ تعزیرات پاکستان کی دفعہ ۵۹۲الف میں حسب ذیل تشریح درج کی جائے۔(تشریح) ؛ کوئی مسلمان جوآئین کی دفعہ ۰۶۲کی شق (۳)کی تصریحات کے مطابق محمد ﷺ کے خاتم النبیین ہونے کے تصور کے خلاف عقیدہ رکھے یاعمل یاتبلیغ کرے،وہ دفعہ ہذا کے تحت مستوجب سزاہوا۔(د) کہ متعلقہ قوانین مثلاً قومی رجسٹریشن ایکٹ ۳۷۹۱ ؁ء اور انتخابی فہرستوں کے قواعد ۴۷۹۱ ؁ء میں منتتخبہ قانونی اورضابطہ کی ترمیمات کی جائیں۔ (ہ)کہ پاکستان کے تمام شہریوں خواہ وہ کسی بھی فرقے سے تعلق رکھتے ہوں ، کے جان ومال ،آزادی ،عزت اور بنیادی حقوق کاپوری طرح تحفظ اور دفاع کیاجائے گا۔ اور ان سفارشات کی اساس پرذیل کابل پیش ہوا؛ہرگاہ یہ قرین مصلحت ہے کہ بعد ازین درج اغراض کے لئے اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آئین میں مزید ترمیم کی جائے۔ لہذا بذریعہ ہذا حسب ذیل کاقانون وضع کیاجاتاہے۔
۱۔مختصر عنوان اورآغازنفاذ؛(۱)یہ ایکٹ آئین(ترمیم دوم)ایکٹ۴۷۹۱ ؁ء کہلائے گا۔(۲)یہ فی الفور نافذالعمل ہوگا۔۲۔ائین کی دفعہ ۶۰۱ میں ترمیم: اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آئین میں جسے بعد ازیں آئین کہاجائے گا، دفعہ ۶۰۱ کی شق (۳) میں لفظ فرقوں کے بعد الفاظ اور قوسین ’’اور قادیانی جماعت یالاہوری جماعت کے اشخاص (جواپنے کو احمدی کہتے ہیں)‘‘درج کئے جائیں گے۔۳۔آئین کی دفعہ ۰۶۲ میں ترمیم ؛ آئین کی دفعہ ۰۶۲میں شق(۲)کے بعد حسب ذیل نئی شق درج کی جائے گی یعنی؛ (۳)جوشخص محمد ﷺ جو آخری نبی ہیں ‘ کے خاتم النبیین ہونے پر قطعی اور غیر مشروط طور پر ایمان نہیں رکھتایا جو محمدﷺ کے بعد کسی بھی مفہوم میں یاکسی بھی قسم کا نبی ہونے کا دعوی کرتاہے یا جوکسی ایسے مدعی کونبی یادینی مصلح تسلیم کرتاہے وہ آئین یاقانون کی اغراض کے لئے مسلمان نہیں ہیں۔ بیان اغراض ووجوہ؛ جیسا کہ تمام ایوان کی خصوصی کمیٹی کی سفارش کے مطابق قومی اسمبلی میں طے پایاہے ، اس بل کامقصد اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آئین میں اس طرح ترمیم کرناہے تاکہ ہروہ شخص جو محمد ﷺ کے خاتم النبیین ہونے پرقطعی اور غیرمشروط طور پر ایمان نہیں رکھتایا جو محمدﷺ کے بعد کسی بھی مفہوم میں یاکسی بھی قسم کا نبی ہونے کا دعوی کرتاہے یا جوکسی ایسے مدعی کونبی یادینی مصلح تسلیم کرتاہے اسے غیرمسلم قرار دیاجائے۔عبدالحفیظ پیرزادہ وزیرانچارج (بحوالہ تحریک ختم نبوت۴۷۹۱ء)
جمعہ کی تعطیل کا آغاز۷جنوری ۷۷۹۱ء کو وزیراعظم پاکستان ذوالفقار علی بھٹو نے اعلان کی کہ یکم جولائی ۷۷۹۱ ء سے ہفتہ وار تعطیل اتوار کی بجائے جمعہ کو ہو ا کرے گی ،۱۱مئی ۷۷۹۱ ء کو قومی اسمبلی نے بھی جمعہ کو ہفتہ وار تعطیل قرار دینے کابل منظور کرلیا،یوں یہ انگریزوں کی ۶۹سال پرانی نشانی ختم ہوئی، اتوار کو ہفتہ وار تعطیل کا دن ۱۸۸۱ء میں انگریزوں نے قرار دیاتھا۔
لیکن افسوس کے نوازشریف نے اپنے دور میں ۳۲فروری ۷۹۹۱ء کواتوار کی تعطیل بحال کردی ۔
تحریک نظام مصطفی ۰۱جنوری ۷۷۹۱ء کو لاہور میں حزب اختلاف کی ۹ سیاسی جماعتوں نے وزیراعظم بھٹو کے خلاف ’’پاکستان قومی اتحاد‘‘کے نام سے ایک تنظیم بنائی ،اور ۷مارچ ۷۷۹۱ء کے عام انتخابات کے نتائج کوحزب اختلاف کے سیاسی ا تحاد ’’پاکستان قومی اتحاد‘‘نے تسلیم سے انکار کر دیااور ۴۱ مارچ سے ان نتائج کے خلاف تحریک چلانے کا اعلان کیا،اس تحر یک کوتحریک نظام مصطفی کانام دیاگیا،یہ تحریک ۷۲ مئی ۷۷۹۱ ء تک جاری رہی اس دوران مزدور ،وکلاء ،علماء کرام ،طلباء ، خواتین اور بچوں کے کئی جلوس نکلے ،بعض شر پسند عناصر نے اس موقع سے فائدہ اٹھاکر بڑے پیمانے پر ہنگامے شروع کردئیے ،جس میں ۰۰۷ عمارات نذرآتش جبکہ ڈھائی سو افراد لقمۂاجل بنے ، جبکہ ساڑھے تراسی ہزار افراد پابند سلاسل بنے ۔ان ہنگاموں کازور اس وقت ٹوٹا جب ۳ ماہ بعد جون ۷۷۹۱ء کو حکومت اور تحریک نظام مصطفی کے نمائندوں کے درمیان مذاکرات کاآغازہوا۔

کتابیات متعلقہ بتحقیق
پاکستان تاریخ وسیاست۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ڈاکٹر صفدر محمود
آئین پاکستان ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اسلام اور جمہوریت ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔معروف شاہ شیرازی
دستور پاکستان نمبر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ماہنامہ حق نوائے احتشام کراچی
پاکستان نمبر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 
مارشل لاء سے مارشل لاء تک۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔سید نور احمد
قراردادمقاصد سے اسلامی قانون تک ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ڈاکٹر حفیظ الرحمن صدیقی
مطالعہ پاکستان ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ محمد علی چراغ
تحریک ختمِ نبوت ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پاکستانیکا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پاکستان کی دستور سازی میں علماء کا کردار۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔




1 comment:

  1. آئین پاکستان ڈاون لوڈ یهاں سے کرین
    http://bhainoor.blogspot.com/2014/03/blog-post.html

    ReplyDelete