وسعت اللہ خان صاحب اردو ادب
کے بہت اچھے قلمکار ہیں۔وقتاً فوقتاًبی بی سی اردو پر اپنے قارئین کو بہت اچھا
مواد فراہم کرتے ہیں۔ آج ان کے بلاگ کو پڑھ کر دل چاہا کہ اس بارے میں کوئی تبصرہ
کیا جائے۔ ۔
مذکورہ بی بی سی کے بلاگ میں
موصوف نے چند باتیں ایسی کہی ہیں کہ جس میں ریاضی کے لحاظ سے درست ہندسوں اورحقیقی
دینی معلومات کے پردے میں کچھ ایسے حقائق کو پس پردہ ڈال دیا ہے کہ ان سے انکار کم
از کم کسی مسلمان کو ممکن نہیں۔بلا شبہ پاکستان کی حد تک ان کی ہندسی معلومات جزوی
طور پر یقیناًدرست ہیں۔ان معلومات کو جزوی طور پر درست اس لئے کہ رہا ہوں کہ ہر
مسلمان خصوصاً پاکستانی مسلمان اپنے گرد و پیش کا جائزہ لے اور پوری دیانت سے
فیصلہ کرے کہ کیا واقعی اکثریت اسی معیار (نمود و نمائش یا مالی و سیاسی منفعت کے
طور پر) کی قربانی کرتی ہے؟امید واثق ہے کہ جواب نفی میں آئے گا۔لیکن اگر بالفرض
جواب ہاں میں ہو تو کیا باقی سارے عالم کے مسلمان بھی ہمارے پاکستانی مسلمانوں کی
طرح ہیں کہ صرف نمود و نمائش یا محض مالی منفعت ہی مقصد اصلی ہے؟ جیسا کہ موصوف
فرما رہے ہیں۔اس کا جواب کم از کم میں یقیناًنفی میں دیتا اور سمجھتا ہوں۔کیا ۲۵ لاکھ حاجیوں کا بھی وہی مقصد ہے جو کہ فاضل کالم نگار نے
فرمایا؟یقیناًاگران کا اصل مقصد پاکستان میں کی جانے والی قربانیوں کی حقیقی روح
کو زندہ کرنا ہے تو کیا ضروری ہے کہ س کا عنوان ایسا ہو کہ جو بذات خود ایک ایسا
جملہ ہو کہ اس کو پڑھ کر خدا نخواستہ اللہ کے بارے میں انسانی عقل کو چونکا دینے
والا ہو۔ کیا ضروری ہے کہ صرف قاری کی توجہ حاصل کرنے کے لئے ایسے متنازعہ فیہ
عنوان کا انتخاب کیا جائے ؟موصوف نے اس کا عنوان ''لیکن خدا کو کیا ملا''رکھ کر
ایسی ہی کوشش کی ہے۔ قربانی کے حوالہ سے یورپ میں بالعموم اور عقلییت پرستوں میں
بالخصوص اس بات پر بہت شد و مد کے ساتھ پروپیگنڈا کیا جاتا رہا ہے کہ اس قربانی کا
مقصد محض خون بہانا ہے اگر اتنی ہی رقم کسی فلاحی ادارے میں خرچ کر دی جائے تو
کتنے لاکھوں انسانوں کا بھلا ہو جائے!!!سوال یہ ہے کہ کبھی کسی کالم نگار نے یہ
کیوں نہیں کہا کہ اگر فلاں گلوکار نے کنسرٹ کیا تو اس لوگوں نے شرکت کی تو اتنے
پیسے کسی چیرٹی فنڈ میں دے دیتے تو کتنوں کا بھلا ہو جاتا،یاجتنے پیسے کسی فلم،فیشن شویاڈرامہ بنانے میں ضائع ہوئے اگر سیلاب متاثرین میں، یاکسی آفت زدہ علاقے کے غریبوں میں تقسیم کردیتے تو کسی غریب کا چولہا ہی جل جاتا ، کسی بھوکے کو دو دن کاکھانا ہی نصیب ہوجاتا کسی غریب کی عید اچھی گذرجاتی۔اس طرف کبھی کوئی نہ تو
توجہ دلائے گا اور نہ ہی قلم اٹھائے گا ورنہ اس کو دقیانوس اور رجعت پسند جیسے
القابات سے نوازا جانے لگے گا اور ہو سکتا ہے کہ ایسی حق پرستی کا ارتکاب اگر وسعت
اللہ خان جیسے قلمکار کر گزریں تو ان کی نوکری اور چاکری جاتی رہے۔یہ جولانگاہ ان
کو صرف اسلامی احکام کے میدان ہی میں میسر آسکتی ہے کہ ''اوپر سے'' آرڈر ہی یہ ملا
ہوا ہے ۔اور تنخواہ بھی اسی مد میں ملتی ہے اور اگر کچھ بظاہر اچھا ہو بھی گیا تو
انعام بھیا۔
No comments:
Post a Comment