بسم اللہ الرحمن الرحیم
میں دوسال سے جدیدیت کے افکار،اثرات اور نتائج کا مطالعہ کررہاہوں ۔کچھ عرصہ قبل میں نے " آزادی ٔنسواں کا نعرہ " کے عنوان سے اس موضوع پرکچھ اپنے مطالعہ کا حاصل پیش کیاتھا ،جس میں بات کوواضح کرنے کے لئے کچھ صاف الفاظ استعمال کئے تھےجسے بعض احباب نے برا بھی منایا ،مگر حقیقی صورتحال سے آپ نظریں بند تو کرسکتے ہیں انکار نہیں کرسکتے ۔
آج میں آپ کے سامنے "جنسی آزادی ،روشن خیالی " کے نعروں پرکچھ بات کرنا چاہتاہوں ۔ میں پہلے عرض کرچکاہوں کہ یہود نے اپنے مذموم مقاصد پورا کرنے کے لئے انکوخوبصورت لفظوں میں ڈھانپ دیاہے۔ پروٹوکول نامی بدنام ِزمانہ یہودی منصوبہ جو کہ آج سے تقریباً سوا سو سال پہلے افشا ہوا تھا اس کےپروٹوکول نمبر ۱۴ کے آخری پیراگراف میں لکھاہےکہ
5. IN COUNTRIES KNOWN AS PROGRESSIVE AND ENLIGHTENED WE HAVE CREATED A SENSELESS, FILTHY, ABOMINABLE LITERATURE. For some time after our entrance to power we shall continue to encourage its existence in order to provide a telling relief by contrast to the speeches, party program, which will be distributed from exalted quarters of ours .... Our wise men, trained to become leaders of the GOYIM, will compose speeches, projects, memoirs, articles, which will be used by us to influence the minds of the GOYIM, directing them towards such understanding and forms of knowledge as have been determined by us.
مفہوم عبارت یہ ہے کہ؛
ترقی پسند ملکوں میں ہم نے فحش اور بیہودہ قسم کا لٹریچر پھیلارکھا اقتد ار سنبھالنے کے بعد ہم تقریر وتحریر میں ان کے ان جذبات اور حرکات کی حوصلہ افزائی کریں گےاور ہمارے دانشوروں کو اس بات کی تربیت دی جائے گی وہ اس طرح کی باتیں کریں جن کو غیر یہودی جلدی قبول کرلیں (یعنی فحاشی عریانی کی )۔تاکہ غیر یہودیوں کی نئی نسل ہمارے بتائے ہوئے راستے پرہی چلے۔
پروٹوکول کاساد ا لفظوں میں تعارف یہ ہے کہ پروٹوکول اس یہودی منصوبہ کانام ہے جس میں دنیا پر یہودی راج قائم کرنے کے لئے وہ چالیں اور خطوط طے کئے گئے ہیں جن پر چل کر یہود آسانی سے دنیا کو اپنے دام میں پھنساسکیں گے۔آپ پروٹوکول پڑھیں اور اپنے اردگر د پر نظر ڈالیں تو سوفیصد آپ کووہی ہوتا نظر آئے گا جس کی انہوں نے سو سال پہلے پلاننگ کی تھی ۔انہی چالوں میں سے ایک جنسی بے راہ روی کوعام کرناہے جس کامقصد یہ ہےکہ پوری دنیا کے نوجوانوں کو اس دھندے میں ایسا مست کردیا جائے کہ وہ اقتدار اورحکومت کی طرف دیکھیں بھی نہیں بس ان کی ایک ہی خواہش باقی رہے کہ ایک دفعہ اور ۔۔۔۔
آج کی صورتحال پرنظر ڈالنے سے پہلے میں اس نظریے جنسی آزادی کی بنیادوں سے ذرا آپ کا تعارف کروانا چاہوں گادنیا میں سب سے پہلے آزاد جنسی تعلقات کا نظریہ مزدک نے پیش کیا اس نے ایران کے بادشاہ کو جھوٹے معجزے(آگ سے آواز آنا۔درحقیقت اس نے آتش کدہ کی سائیڈ میں ایک لمبی سرنگ کھدوا کرایک آدمی اس میں بٹھایا ہوا تھاجسے اس نے پہلے سے سبق یا د کروایا تھا کہ تم نے یہ بو لنا ہے) سے الوبنا کر اپنی بزرگی کا اسیر کیا پھر اپنی شریعت کے طورپر یہ حکم بادشاہ کودیا کہ پورے فارس میں اعلان کرادو کہ جس کو جہاں کوئی عورت ،مال وغیرہ ملے اور وہ ضرورت محسوس کررہا ہے تو وہ اسے استعمال کرسکتاہے،جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ پورے ایران میں ایک طوفان بدتمیزی مسلط ہوگیا ،کسی کی عزت آبرو اور مال محفو ظ نہ رہا،کچھ لوگوں نے اس صورتحال کی عقل مند ،انصاف پسند شہزادےنوشیرواں کوخبر دی جس نے اپنی عقل مندی سے اس خبیث انسان سےپورے ایران کو چھٹکارا دلایا۔(کچھ عرصے سے ایک پاکستان کیمیونسٹ کی کتاب "موسی سے مارکس تک مصلحین" (اردو،سندھی) میں متحرک ہےاس کتاب میں مزدک کو بھی مصلح شمار کیا ہےافسوس ان کیمیونسٹوں کی عقل پر جنہوں نے حضرت موسی جیسے جلیل القدر نبی کواور مزدک جیسے حرامی کوایک ہی صف میں کھڑاکردیا)۔
یہ نظریہ مزدک کے جانے کے بعد بھی ایران میں مختلف زمانوں میں ظاہرہوا ۔ اسلام کے ظہور کے بعد یہ نظریہ بابیہ اور بہائیہ وغیرہ (ایران) فرقے نے اختیار کیا،جس کے کچھ پیروکار آج بھی موجود ہیں ۔ایران میں اس نظریہ کے بار بار اٹھنے کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ ایران کا رائج اصل مذہب مجوسیت تھی اور مجوس کے ہاں بہن سے بھی نکاح جائز تھاجس کی وجہ سے شرم اور غیرت نام کی چیزیں ان میں پہلے ہی مفقود تھیں ،اور عمومی طور پر نوجوانی میں اپنی بہن کے ساتھ زنا میں مبتلا رہتےتھے۔جو خود اپنی بہن کواستعمال کرے تو اسے کسی اور کی بہن استعمال کرنے یا اپنی بہن کو کسی اور کے ساتھ شئیر کرنے میں کیا غیرت اور شرم محسوس ہوتی۔چنانچہ ایران میں جنسی آزادی یااباحیت مطلقہ کا نظریہ مختلف اوقات میں سراٹھاتا رہاہے۔
قریب قریب مجوس والا نظریہ عبیداللہ قیروانی نے اختیار کیا یہ شخص خدا کا منکرتھااور جنسی آزادی کا قائل تھا۔ مغربی مشہور فلسفی برٹرینڈرسل جس کے نظریات پرآج کایورپی معاشرہ استوار کیا جارہاہے۔اس کے نظریات اور دلائل اسی عبیداللہ قیروانی کے فلسفے اور دلائل سے ماخوذ ہیں جن پر میں کسی اور وقت تفصیلی گفتگو کروں گا۔اس شخص عبیداللہ قیروانی نے بہن کے ساتھ نکاح کے جائز ہونے کو اپنے زعم میں بڑے عقلی دلائل سے ثابت کیاجن کی بکواس سے زیادہ کوئی حقیقت نہیں ہے۔یہی نظریہ حشیشین فدائیوں کا رہاہےجن کا صلاح الدین ایوبی مرحوم نے صفایا کیا۔
آج کے دور میں اس کو دوبارہ اجاگر برٹینڈرسل نے کیااور اپنی کتا ب "Why I'm not a Christian" میں اس پر بڑی لمبی چوڑی بات کی ۔ اس کے خیال میں جنس پربندش مذہب کا ایک بہت بڑا ظلم ہے جس سے معاشرے میں خرابیاں پیدا ہوتی ہیں۔اس کی با ت عیسائیوں کی حدتک توٹھیک ہےکہ عیسائیت میں مطلق عورت کو گالی سمجھ لیاگیااور عورت سے پرہیز کو پارسائی کانام دیاگیامگر اسلام میں عیسائیت جیسا کوئی تصور نہیں بلکہ اسلام میں ضروری جنسی تعلقات کانکاح کی شکل میں اہتمام کیا گیاہے۔ اور ایک پاکیزہ معاشرہ قائم کرنے کے لئے جلدی نکاح کی ترغیب دی گئی ہے۔نکاح کے بغیرایمان کوناقص اور نکاح کے ساتھ ایمان کاکمال قرار دیاگیا ہے۔بیوی کے حقوق ادا کرنے پرثواب کا وعدہ کیاگیاہے۔بیواؤں کے نکاح کی ترغیب ہے۔غرض برٹرینڈرسل نے جوالزامات مذہب پر لگائے ہیں وہ عیسائیت میں تو ہیں مگر اسلام میں ایساکوئی ظلم نہیں ۔
یورپ کی عادت انتہاپرستی ہے اعتدال نا م کونہیں پہلے سرے سے نکاح کرکے بیوی رکھنے کوبھی حرام سمجھتے تھے اور اب ماں، بہن، بیٹی کی تمیز بھی ختم ہوگئی ہے۔اس سارے کھیل میں بڑا کردار یہود کا ہے جن کے اس کے پیچھے اپنے عزائم پوشیدہ تھے برٹرینڈرسل بھی یہودیوں کا لے پالک تھا اس نے ساری زندگی عیسائیت کی بیخ کنی میں گذار دی مگر یہودیوں کو ان کے کٹر،متعصب مذہبی ہونے کے باوجو د بھی تعریف کرتے گذار دی ۔
بہرحال اب الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیاکا بھر پور استعمال کرتے ہوئےروشن خیالی کا مہذب اور چکنا چوپڑا نعرہ استعمال کرتے ہوئے عملی طور پرنوجوان نسل میں ان نظریات کوداخل کیاجارہاہے ۔ اس نظریہ " جنسی آزادی یااباحیت عامہ " کو عملی طور پر نوجوان نسل کی زندگی میں داخل کرنے کے لئے سب سے بڑے پیمانے پر نیٹ کااستعمال ہورہاہے۔آئندہ چل کرجو باتیں میں ذکرکرنے والا ہوں نیٹ پر بیٹھنے والا 95پرسنٹ طبقہ اس سے واقف ہے۔نیٹ میں سیکسی ویڈیوز کے علاوہ سیکسی تحریروں کی باقاعدہ سائٹیں اور بلاگز ہیں جن کے ذریعے دوباتو ں کی خصوصی مہمیز دی جاتی ہے۔
کسی نے صحیح شعر مروڑا ہے ع خدا جب عقل لیتا ہے حماقت آہی جاتی ہے
ایک عام انسان سے ان باتوں کا تصور نہیں ہوسکتا چہ جائیکہ مسلمان سے۔یہی وہ لو گ جن کو قرآن کہتاہے ،کہ یہ جانور ہیں بلکہ جانور وں سے بھی زیادہ گمراہ۔ان میں سے اکثر کام تو عام جانور بھی نہیں کرتے سوائے خنزیر جیسے خبیث الفطرت جانور کے۔
ہماری نوجوان نسل لاپرواہی سے ان ویڈیوز کودیکھ کراور ایسے بلاگزاور تحریریں پڑھ کر اپنے جذبات کوتسکین دیتے ہیں،اور آدمی جو کچھ دیکھتا ،سنتا ، سوچتا ہے ،کسی وقت اس کا عملی ارتکاب بھی کرتاہے۔ اور افسوس صدافسوس ایسے واقعات ہمارے اسلامی جمہوریہ پاکستان کی نوجوان نسل سے سرزد بھی ہورہے ہیں۔اس ساری مہم کامقصد مسلمان نوجوانوں کواسلامی سوچ سے دور کرنا ہے،نفسانی جذبات کو اشتعال دلاکرمذہب سے دور کرنا ہےیہ یہود کا قدیم زمانہ سے بہت کامیاب حربہ ہے۔
یاد رکھیں ماں، بہن، بیٹی اور دیگر محرم رشتہ داروں کی حرمت تمام مذاہب میں رہی ہے۔جس قوم میں ماں، بہن، بیٹی اور عام عورت میں فرق ختم ہوجائے وہاں بے غیرتی اور حرامی نسل تیار ہوتی ہے۔ایک مسلمان کے لئے تو اتنا ہی کافی ہےکہ اسلام نے مذکورہ بالاتمام چیزوں کو حرام قرار دیا ہے۔عقلی اور نقلی دلائل سے بات میں خوامخواہ طوالت ہوگی ایک عقل مندا ٓدمی جانتاہے کہ دنیا میں صرف ایک یہی کام ہی نہیں بلکہ اور بھی ہیں ۔انسان کو صرف اپنی جنسی لذت ہی حاصل نہیں کرنی ہوتی بلکہ ماں ،بہن ،بیٹی کی محبت ان سب سے ہٹ کر ایک اور چیزہے۔ منہ میں سیکس کرنا نہ صرف ایک بے ہودگی ہےبلکہ طبی طور پر بھی اعضاء کےلئے نقصان دہ جو کہ خود سیکس سپیشلسٹوں کا اعتراف ہے۔
ان خرابیوں کے اسباب
ان خرابیوں کا جہاں ایک بنیادی سبب نیٹ کاغلط استعمال ہے ۔اور عنقریب نافذ ہونی والی سیکس ایجوکیشن کا دخل ہوگاوہیں ہماری معاشرے کی چند اور خرابیاں بھی ہیں ۔
1 شادی میں تاخیر
2 کو ایجوکیشن
اسلام کابہترین اصول
اسلام میں جلد ی شادی کی ترغیب دی گئی ہے۔لڑکا لڑکی کے بالغ ہوتے ہی فوراً ان کا نکاح کردیناچاہئے ۔(اگر آج کل تعلیم حاصل کرنے اور نوکری تلاش کرنے کا عذر کیاجائے تو یہ کوئی عذرنہیں۔یہ ممکن ہےکہ صرف لڑکا لڑکی کا زبانی نکاح کردیاجائے اور انہیں آپس میں ملنے کی مکمل آزادی دے دی جائے،مگرلڑکا اپنے گھررہے اور لڑکی اپنے ماں باپ کے گھر یہاں تک کہ ان کی تعلیم مکمل ہوجائے اور نوکری وغیرہ مل جائے تو لڑکا لڑکی اکٹھے رہنے لگ جائیں۔ ویسے بھی تو اتنی دیردونوں کے ماںباپ اپنی اپنی اولاد کا خرچہ برداشت کرتے ہی ہیں کیامرجائیں جو شادی کرکے برداشت کرلیں ۔ آج کے دور میں ہمیں اپنی شناخت باقی رکھنے کے لئے یہ ضروری ہے)ایک حدیث پاک کا مفہوم ہے تین چیزوں میں بالکل تاخیرنہ کرو ۔ان میں سے ایک یہ ہے کہ بن بیاہی لڑکی جب اس کے جوڑ کا لڑکا مل جائے تو شادی میں بالکل تاخیرنہ کرو۔شادی سادگی سے کرنے کی ترغیب دی گئی مسجدمیں نکاح مسنون ہے۔صرف ایک مہروہ خرچہ ہے جو شادی میں اسلام حکم دیتاہے۔وہ بھی زیادہ رکھنے کی کو ئی ترغیب نہیں دی گئی ۔ولیمہ میں سب جاننے والوں کو بلانا بھی ضروری نہیں صرف حاضرین مجلس اور قریبی علاقے کے احباب کو جو آسانی سےاچھا اکرام کرسکے کرلے ۔نکا ح کے لئے خطبہ بھی ضروری نہیں صرف مسنون ہے۔لڑکا ،اورلڑکی یا لڑکی کے ولی کا ایجاب وقبول دوگواہوں کی موجودگی میں ضروری ہے۔صحابہ کرام میں آسان نکاح کی ایک مختصر مثال عرض ہے۔
ایک صحابی نے ایک دوسرے صحابی سے کہاکہ فلاں کے ہاں میں شادی کرنا چاہتاہوں تم میرے رشتے کی بات ان سے کرو ۔ اور ان صحابی کولے کرمطلوبہ قبیلے میں لے گئے خود باہر رک گئے اور ان صحابی کو بھیج دیا۔
جب صحابی ان لوگوں سے ملےاوردوسرے صحابی کے لئے رشتہ مانگا تو انہوں نے کہاکہ ہم اسے تو نکاح دینے پر تیار نہیں البتہ اگر تم نکاح کرناچاہوتو ہم تیار ہیں ۔ انہوں نے کہامجھ سے کردو۔جب باہر آئے تو بہت شرمندہ اور ساراقصہ ان صحابی کو بتا یا اور معذرت بھی کی اور شرمندگی کا اظہار بھی۔ ان صحابی نے کہاشرمندہ تو مجھے ہونا چاہئیے کہ قسمت تمہاری تھی اور میں ایسے ہی سوچ رہاتھا۔
اسلام میں بیوہ عورت کے نکاح کرنے میں یا ایک سے زیادہ عورتوں سے نکاح کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں ۔
ہمارے ہاں سب سے زیادہ خرابیاں نکاح کے نظام میں ہیں ۔نکاح کو اتنا مشکل بنادیاہےکہ ایک عام آدمی نکاح کاسوچ بھی نہیں سکتا۔اسلام نے نکاح کوزناسے آسان اور سستاکیاہے اور نکاح کی ترغیب دی ہے۔جب کہ ہم نے نکاح کومہنگا اور مشکل بنا دیاہے جب کہ زناانتہائی آسان کردیاہے۔ ایک آدمی ایک سے زیادہ نکاح نہیں کرسکتا،گرل فرینڈ کے نام پر اللیگل وائف جتنی مرضی بنالے۔بیوہ عورت دوسری شادی نہیں کرسکتی خواہ مجبورا اسے کچھ بھی کرنا پڑے ۔ افسو س صد افسوس۔
1 سب سے پہلے تو میری مسلمان والدین سے درخواست ہے کہ اپنےبچوں کو کالج ،یونیورسٹی سے پہلے نیٹ سے دور رکھیں۔
2 کالج ،یونیورسٹی کے طلباء کواگرنیٹ کی ضروری ہوتو اپنی موجودگی میں انہیں نیٹ استعمال کرنے دیں اوران کے سونے کے کمرے میں نیٹ کی سہولت کبھی نہ دیں۔
3 حتی الامکان اپنے بچوں بچیوں کو" کو ایجوکیشن سیسٹم" سے بچائیں ۔
4 اگر" کو ایجوکیشن سیسٹم "کے علاوہ کوئی چارہ نہ ہو تو کالج کے بچے بچیوں کے اپنے مناسب کلاس فیلوز سے غیرتحریری نکاح کردیں ، بچہ بچی اپنے اپنے والدین کے ہاں رہیں،مگر ان دو کو آپس میں ملنے کی مکمل اجازت دے دیں۔ (ہوسکتاہے ابھی بعض لوگ میری بات کا مذاق آڑائیں مگر جہاں تک موجودہ صورتحال کے کا نتیجہ نظرآرہاہے وہ یہ ہے کہ اگر ایسا نہ کیا گیاتوآئندہ چند سالوں میں کالج یونیورسٹیوں میں غیرشادی شدہ حاملہ لڑکیاں کثرت سے ہونے لگے گی اور "ورجن "ہونا ہی عیب بن جائے ۔ جیسا کہ مغربی سوسائٹی میں اب حال ہے۔ )
5 جتنا جلد ہوسکے اپنے بچوں کے نکاح کردیں اور نکاح سنت کے مطابق سادگی سے کریں تاکہ نکاح کرنا آسان ہو۔
No comments:
Post a Comment