Sunday, April 24, 2011

بے چاری مظلوم عورت !Poor Women

شروع اللہ کے نام سے جوبڑا مہربان نہایت رحم والاہے

عورت جو کہ معمارِ انسانیت   ہےوہ انسانیت کی سب سے مظلوم فرد بھی ہے۔ عور ت پر کل  ماضی میں بھی ظلم ہوتارہا ہےمگر یہ ظلم آج پہلے سے کئی گنا بڑے پیمانے پر ہورہاہے۔ جس طرح یہودیوں نے بینکوں کے ذریعے ایک ایک روپیہ کا زیادہ سے زیادہ بڑے پیمانے پراستعمال ایجاد کیاتاکہ ایک روپیہ سے زیادہ سے زیادہ نفع کمایا جاسکے،(اس بات کو معاشیات پڑھنے والے اچھی طر ح سمجھ سکتے ہیں)اسی طرح انہوں  نے عورت کابڑے سے بڑے پیمانے پراستعمال کرنے کے لئےحقوق نسواں ، مساوات اور خودمختار خاتون کے نعرے ایجاد کئے۔ جس کے ذریعے مرد اب عورت سے زیادہ آسانی سے ہر کام میں مستفید ہوتے ہیں۔ اورعورت بیچاری ان خوشنما نعروں کی وجہ سے مرد کے ہاتھوں فریب کا شکار ہوچکی ہے۔ ہم موجودہ عورت پر ہونے والے مظالم کے تذکرہ سے پہلےماضی کی عورت پر ہونے والے مظالم کا تذکرہ کرتے ہیں ۔
ماضی کی عورت پر ظلم
پہلے زمانے کی عورت پر ہونے والا ظلم مختلف علاقوں میں مختلف تھا۔البتہ اتنی بات سب جگہ مشتر ک تھی کہ عورت کی حیثیت مرد کے مقابلے میں کچھ نہیں تھی ۔ عورت کو میراث پوری دنیا میں کہیں بھی نہیں ملتی تھی۔عورتیں اپنے شوہروں کی غلاموں کی طرح تھی ۔اور مرد کسی چھوٹی سی بات پر بھی عورت کی دل کھول کرپٹائی کرتے تھے، جبکہ عورت کو کسی قسم کی چوں چرا کا  حق نہ تھا۔ لڑکی کا پیدا ہونا ہی معیوب تھا۔ اور عمومی طور پر لڑکی کو منحوس سمجھا جاتاتھا۔
یورپ میں عورت Woman in Europe
یورپ میں ابتداء سے  قرون وسطی یا تاریک زمانہ جسے Dark ages کہتے ہیں یعنی 16ویں صدی عیسوی تک بالعموم اور 1960ء تک کئی علاقوں میں عورت  کو سامان Things کی کیٹگری میں شمار کیا جاتاتھا۔ اور اگر شوہر نامدار ایک بیوی سے اکتا گئے تو وہ اسے بازار میں جاکر فروخت کرآتے تھے،اور مارکیٹ سے زیرو میٹر نہ ملنے کی صورت میں کوئی useشدہ ہی لے آتے۔ اور وہ نیک خاتون بھی نئے شوہر یا مالک کے ساتھ روانہ ہوجاتیں۔  گھر میں عورت کو مارنے کے لئے ایک لاٹھی شوہر ہر وقت تیاررکھتا اور موقع بے موقع اس کا بے دریغ استعمال کرتا، کیونکہ ان کے خیال میں عورت کو سیدھا کر نے کے لئے اس کا استعمال بہت ضروری تھا۔ یورپ کے کئی علاقوں میں عورت کو اپنی شناخت کا حق اور ووٹ کاحق 2000ءمیں ملا۔
ہندوستان میں عورت  Women in India
ہندوستان میں ہندی رسم ورواج میں عورت کو انتہائی منحوس سمجھا گیاہے۔ منوشاستری عورت کو خصوصی طور پر دبانے کاحکم دیتی ہے۔  ہندی معاشرہ جہاں کئی جانوروں کو دیوتا کا درجہ دیا جاتاہےاس میں عورت کاتصور ایک ادنی جانور حتی کے سب سے کم تر ذات شودر کے مقابلے میں بھی کم ہے۔اور عورت کو تمام فسادات کی جڑ قرار دیا گیا ۔ عورت کی کس قدر کردار کشی ہندی لٹریچر میں کی گئی اس کا احاطہ دشوار ہے۔ اس کی انتہا یہ ہے کہ اگر عورت کا شوہر مرجائے تو اس عورت کوجینے کاحق ختم ہوجاتاہے۔ اور ہندی مذہبی حکم اس عورت کے لئے یہ ہے کہ وہ عورت اپنے شوہر کے ساتھ جلا دی جائے ۔جسے اصطلاح میں ستی ہونا کہتے ہیں۔
سندھ میں عورت  Women in Sindh
تمام قدیم تہذیبوں میں سے صرف سندھ میں موئن جو دڈو کی کھدائی میں کچھ ایسے آثار ملے ہیں جن سے معلوم ہوتاہے کہ سندھ میں باقی معاشروں کے برخلاف کسی درجہ میں عورت کااحترام تھا۔ یہاں کے بعض قدیم رسم ورواج کے اثرات  آج تک بعض دیہاتوں میں  موجود ہیں مثلاً ladies firstکا قانون یا گاڑی یا سفر وغیرہ میں مرد اپنی جگہ عورت کے لئے چھوڑدیتے ہیں۔(مگر جدیدجہالت سے روشناس ہونے والے سندھ کی اس ثقافت کو ختم کررہے ہیں اور عورت کے لئے جگہ چھوڑنے کو اپنی توہین سمجھتے ہیں۔ اگر آپ کسی کی ماں بہن کو جگہ دیں گےاور اس رسم کو باقی رکھیں گے تو آپ کی ماں بہن بھی آرام سے سفر کرسکیں گی ورنہ کھڑے مرد وں کے لمس ان کوبرداشت کرنے پڑیں ،جو آپ اپنی جدت پسندی کے باوجود مشرقی ہونے کی وجہ سے قطعاً برداشت نہ کرسکیں گے۔ میری تمام قارئین سے گذارش ہے کہ اس روایت کو باقی رہنے دیں اس میں ہماری غیرت قومی کی حفاظت ہے) مگر اس کے باوجود یہاں کی عورت بھی ہمیشہ دبی رہیں خصوصا 550ءکے بعد جب یہاں سے بدھ مت حکومت کی جگہ برہمن حکومت قائم ہوئی ، اس کا آخری حکمران راجہ داھر تھا اور جس کاخاتمہ  محمدبن قاسم مرحوم نے کیا۔
راجہ داہر نے جو ظلم عورت کے لئے متعارف کرایا وہ تھا عورت کی میراث بچانے کے لئے اس کی شادی ہی نہ کی جائے ۔ یہ رواج آج تک سند ھ میں موجود ہے۔ راجہ داہر نے اس کی صورت یہ نکالی کہ خود اپنی بہن سے شادی کرلی ، اس کے بعد سندھ میں اس رواج کو مختلف شکلیں ملیں۔آج  کل بعض جگہوں پر راجہ کی نقل کاانداز یہ ہے کہ کہہ دیتے ہیں کہ ہم نے لڑکی کی شادی قرآن سے کردی (العیاذباللہ) رائج ہیں۔ اسکے علاوہ اور بھی بہت سارے ظلم ہیں جو سندھ میں قدیم زمانے سے آج تک رائج ہیں۔
ایران  میں عورت Women in Persia
ایران کے قدیم مذہب زرتشت یا مجوسیت میں عورت کا مطلب صرف مرد کی خواہش پوری کرنا تھا اس سلسلے میں بہن بیٹی حتی کہ ماں کی بھی کوئی تمییز نہ تھی اوررمرد جس سے چاہے شادی کرسکتاتھا۔
اس میں مزید ترقی مزدک نے دی جو اباحیت کابانی ہے۔اس کاکہنا یہ تھاکہ کو ئی عورت مخصوص کرنے کی ضرورت نہیں جہاں جس سے دل کرے اپنی خواہش کی تسکین کرلی جائے عورت کامقصد ہی یہی ہے (یہی مقصد آزادئ نسواں کے نعرے کے ذریعے آج حاصل کرنے کی کوشش کی جارہی ہے جو یورپ میں کافی حد تک حاصل ہوچکاہے۔) اس کی اس تحریک کے نتیجے میں ایران میں ایک طوفانِ بدتمییزی شروع ہوا اور ہر جگہ ایران میں یہی نظارے عام ہوگئے۔ بالآخر اس کا علاج نوشیرواں نے اپنی عقل مندی سے کیامگر عورت ہمیشہ دبی رہی ۔
عورت عیسائیت اور یہودیت میںWomen in Christianity and Judaism
عیسائیت اور یہودیت بلکہ قدیم تمام مذاہب کاتصور یہی تھا کہ عورت ایک منحوس مخلوق ہے ، عیسائیت کی سب سے اعلی عبادت ہی عورتوں سے کنارہ کشی تھی یہودی حیض کے زمانے میں عورت کو گھر سے نکال دیتے تھے، بدھ مت ہندومت اور دیگر رائج مذاہب ماسوائے مجوسیت کے عورت سے قطع تعلقی عبادت تھی۔
عرب میں عورت  Women in Arab
اسلام سے پہلے عرب میں عورت دوطرح سے پس رہی تھی ایک طرف تو بعض لوگ بچی کو پیدا ہوتے ہی غیرت کے نام پر قتل کردیتے تھے دوسری طرف دس ،بیس آدمی ایک ہی عورت کو استعمال کرتےاور جو بچہ ہوتا اس میں عورت کو اختیار دیتے کہ وہ  بچہ کسی کی طرف بھی منسوب کرسکتی تھی۔

ماڈرن ورلڈ میں عورتWomen in Modern World
جدید تہذیب نے جو عورت کو استعمال کرنے کے راستے کھولے وہ مزدک بانئ اباحیت کو بھی نہ  سوجھے تھے۔ اب عورت کامرداتنے طور سے استعمال کرسکتاہے جس کا ماضی میں تصورہی نہ تھا۔
مغرب میں تو= آزادی ٔ نسواں +مساوات+جنسی تعلیم =(نتیجہ )عورت کا دوشیزہvirginرہنا ایک عیب بن گیاہے ۔ 12سے 18سال کی لڑکیاں خود اپنی دوشیزگی ختم کرنے کی پیش کش کرتی ہیں جس کی وضاحت نیچے لگی تصویر سے بھی ہوجائیگی ۔لڑکیاں اپنی دوشیزگی Virginityختم ہونے کے فعل کی ویڈیوبنواتی ہیں ۔ اور اس کو مختلف سائٹوں میں My first sex،My first sex teacherیاHow I lost my virginity وغیرہ کے ناموں سے اپ لوڈ کرتی ہیں ۔
مشرقی عورت ابھی اس حد تک ترقی نہیں کرسکی مگرمرد کے لئے اس کا استعمال کافی اور کئی طریقوں سے آسان ہوچکاہے۔ اب مشرقی عورت اپنے سابقہ کاموں ،کھانا پکانا ، کپڑے دھونا،گھر صاف کرنا، بچے سنبھالنا وغیرہ کے ساتھ کما کربھی لاکر دیتی ہے۔ دوسری طرف  مرد پبلک پلیس مثلاً بس ، دفتر ،اسکول وغیرہ میں کم از کم عورت کو دیکھنے، چھیڑنے ، بہانوں سے چھونے اور بسوں اور اسکولوں میں رش کے بہانے عورتوں کو پیچھے سے دھکادینے یا اس پر گرنے کامزا حاصل کرسکتے ہیں ۔ اس کے علاوہ نیم عریاں عورت کی تصویر دوٹکے کی چیز مہنگے داموں بکوانے کابھی کام دیتی ہے۔ مشرقی عورت  کا استعمال مزید آسان کرنے کے لئے سیکولر ادارے مسلسل آزادی نسواں ، حقوق ِ نسواں ، مساوات،  جنسی تعلیم  وغیرہ کے نعرے لگارہےہیں۔
اس میں تو شاید دیر لگے مگر اتنی کامیابی مردوں کو حاصل ہوچکی ہے کہ اگر مرد کچھ نہ کرے اور بیوی کماتی ہوتو بیوی شوہر کی دیگر خدمت سرانجام دینے کے ساتھ ساتھ بے روزگار شوہر کو نان نفقہ بھی دے ۔ملاحظہ ہو
(شوہربھی نان و نفقہ کاحقدار ہے) یہ کسی سیاسی یا سماجی جماعت کا نعرہ  نہیں بلکہ بھارتی عدالت کافیصلہ ، اور بی بی سی اردو کی رپورٹ ہے۔یہ فیصلہ عقلاً اپنی جگہ بجاہے کیونکہ  جب عورت کے حقوق کا مطلب یہی ہے  کہ عورت وہ سب کام کرسکتی ہے جو مرد کرتاہے،تو اس پر وہ سب کام  بھی لازم ہوں گے جو مردپر لاز م ہوتے ہیں ، جیسے :جب مرد کماتاہے اور عورت گھر میں بیٹھ کرکھاتی ہے تو مرد عورت کے نان نفقہ کا پابندہوتاہےیعنی اس کاکھانا پینا، جیب خرچ ،اور دیگرضروریات مرد کے ذمے ہوتی ہیں۔تو اس کے برعکس صورت میں  جب کہ عورت کمارہی ہے اور شوہر گھر میں فارغ بیٹھا ہے تو اب عورت کو بھی مرد کے نان نفقے کاپابند ہوناچاہیئے کیونکہ جب عورت بھی مرد کی طرح ہے اوردونوں میں کوئی فرق نہیں تو ہر حکم میں مساوات ہونی چاہئے۔
خیر اس موضوع پر تفصیلی بات بعد میں کرتےہیں پہلے اس فیصلے کے متعلقbbcurduکی رپورٹ ملاحظہ ہو:
اس رپورٹ کالنک بھی لگادیاہے
شوہر بھی نان و نفقہ کا حقدار ہے
بھارت میں اپنی نوعیت کا یہ ایک اہم فیصلہ ہے
دلی کی ہائی کورٹ نے نچلی عدالت کے ایک فیصلے کو برقرار رکھتے ہوئے کہا ہے کہ اگر بیوی کی آمدنی زیادہ ہو تو اسے اپنے شوہر کو نان و نفقہ دینا ہوگا۔
دلی ہائی کورٹ کےچیف جسٹس جی ایس سیشتانی نے اپنے ایک اہم فیصلے میں کہا کہ بیوی کوگزارے کےلیے اپنے پچپن سالہ شوہر کو ہر ماہ بیس ہزار روپے دینے ہوں گے۔عدالت نے یہ بھی کہا ہے کہ شوہر کی آمد و رفت کی آسانی کے لیے بیوی کو اپنی چار کارروں میں ایک کار بھی دینی ہو گئی۔
مذکورہ خاتون نے ذیلی عدالت کے اس فیصلے کو ہائی کورٹ میں چیلنج کیا تھا جس میں ان سے نان و نفقہ دینے کو کہا گیا تھا لیکن ہائی کورٹ نے بھی ان کی اپیل خارج کر دی ہے۔
عدالت کا کہنا تھا کہ خاتون کی آمدنی لاکھوں روپے ہے جبکہ شوہرکے پاس کمائی کا کوئی ذریعہ ہی نہیں ہے اس لیے شوہر کے اخراجات کی ذمہ داری بیوی پر عائد ہوتی ہے۔
کہانی یہ ہے کہ شوہر ایک آٹو رکشہ چلاتے ہیں۔ ان کی شادی سنہ انیس سو بیاسی میں ہوئی تھی۔ ان کے ایک چھبیس برس کی بیٹی اور چوبیس برس کا بیٹا ہے۔
خاندان اچھی طرح سے چل رہا تھا کہ شوہر نے اپنی بیوی کے نام سے ایک پینگ گیسٹ ہاؤس چلانا شروع کیا جو آکے چل کر اتنا مقبول ہوا کہ اس سے لاکھوں کی آمدنی ہونے لگي۔
پھر بیوی نے شوہر کو گھر سے نکال دیا اور اخبار میں اشتہار دیدیا کہ اس کا شوہر سے کوئی واسطہ نہیں ہے۔
اس پر شوہر نے پہلے بیوی کو طلاق کا نوٹس دیا اور پھر نان و نفقے کا مطالبہ کیا۔ ذیلی عدالت نے شوہر کے حق میں فیصلہ سنایا۔
اس فیصلے کو بیوی نے ہائی کورٹ میں چیلنج کیا جسے عدالت نے مسترد کردیا اور حکم دیا ہے کہ وہ شوہر کے اخراجات برداشت کرے۔
ذرا سوچئےتو!
اس خاص مسئلہ میں تو مدعی علیہ عورت کو بھی آپ کسی درجے میں قصور وار ٹھہرا سکتے ہیں ، مگر اب یہ صرف اس عورت کامسئلہ نہیں بلکہ ایک عمومی قانون بن گیاہے۔ اب" آزاد عورت  صاحبہ"پہلے سارا دن دفتر میں کام کرے وہاں آتے جاتے مردوں کی پیاسی نگاہوں کو برداشت کرے،ہتک امیز جملے سنے ، بھوکوں کے لمس اور دھکوں سے بچنے کی کوشش کرے، مصنوعی مسکراہٹوں سے اشیاء کی مارکیٹنگ میں اضافہ کرے، آفیسروں کے نخروں اور ذومعنی باتوں کوجھیلے، جب گھر پہنچے تو ایک ہٹے کٹے صحت مند شوہر کی پرورش کرےاس کونان نفقہ بھی دے(مشرقی ممالک پاکستان ، ہندوستان میں عورت کو نوکری کے باوجود گھریلوذمہ داریاں "مثلا کھانا پکاناکپڑے دھونا،بچوں کی پرورش وغیرہ "بھی نبھانی ہوتی ہیں) اس کی خواہش بھی پوری کرےاور اس کے بچے بھی جنےاور پھر۔۔ پھر اوپر سے یہ بھی سنے کہ سارا دن باہر مردوں میں کام  کرتی ہے پتہ نہیں یہ بچہ کس کاہوگا۔ دیکھا آپ نے بے چاری عورت کو آزادی کے نام پر مرد نے کیسےذلیل کیا۔ حالانکہ کوئی عدالت یہ فیصلہ نہیں کرتی کہ جب عورت باہر کے کام کررہی ہے تو مرد بچے پیدا کرناشروع کردیں کیونکہ گھرمیں فارغ بیٹھا ہے۔یہ تو مشرقی آزاد عورت  پر ہونے والاظلم ہے۔

مغرب میں تو یہ تحریک کا فی پرانی ہوچکی ہے، وہاں جو عورت پر ظلم ہوتاہےوہ مشرق سے کہیں زیادہ ہے۔  مغرب کے خیا ل میں اس نے ہر میدان میں عورت کو مساوات، بلکہ مرد سے بھی زراترقی ہی  دے دی ہے۔ کیونکہ مرد کالباس توتھری پیس یا کم ازکم  پینٹ شرٹ ہے اس سے کم لباس پہن کر وہ کسی اچھی مجلس میں جانے کا سوچ بھی نہیں سکتا، لیکن عورت تو آزاد ہے ناں ،اس پر کسی پارٹی اٹینڈ کرنے میں اس  قسم کی پابندی نہیں بلکہ  وہ صرف چھوٹی سی چڈی Necker اورسینے پرسینے کے سائز کی ایک پٹی پہن کر( بشرطیکہ وہ پٹی ایک تو  اتنی فٹ ہوکہ سینہ کا ہر نشیب وفراز واضح ہورہا ہواوردوسرایہ کہ  اس سے تھوڑا ساسینہ جھلک رہاہو) بھی ۡشرکت کر سکتی ہے۔ البتہ اگرعورت اس سے زیادہ لباس پہن کرکسی پارٹی میں شرکت کرے ( خواہ سردی کاموسم ہویاگرمی کا ، بلکہ اکثر یورپ میں تو عموماسرد موسم ہی رہتاہے۔)تو اس کے بنیاد پرست اور Fundamentalہونے کاشک ہونے لگتاہے،جو اپنے حسن ِنسوانی سے مردوں کومحظوظ ہونے میں آڑ بن رہی ہے ۔ اور اگر عورت نے سر پربھی کچھ لے لیا توتو اس کے بنیاد پرست اور Fundamentalہونا تقریباً یقینی ہوجاتاہے۔
اسی طرح اگر لڑکی کالج کی عمر کوپہنچ گئی مگرابھی اس کی دوشیزگی برقرار ہے ، Still virginتو یہ اس کے لئے عیب کی بات ہے۔ اس کے لئے اپنی روشن خیالی کو ثابت کرنے کے لئے سب سےزیادہ ضروری کام اسی عیب کو ختم کرناہے(جس کی ساتھ لگی تصویر سے وضاحت ہورہی ہے)۔
دوسرے لفظوں میں یہ اس کی بدصورتی کی بھی دلیل شمار ہوسکتی ہےکیونکہ اگر وہ oood-lookingہGوتی تو اس کے چاہتے نہ چاہتے کچھ لڑکے زبردستی اس کو اس عیب سے نجات دلادیتے ۔ اس  معاملہ کی نزاکت کاکچھ انداز آپ فیس بک کے اس پیج سے کرسکتے ہیں
یعنی "ہر پارٹی کے آخر میں کوئی لڑکی رورہی ہوتی ہے۔"
 Rapیورپ کا سب سے زیادہ ہونے والاجرم ہے جسکی سزا عمومی طور پر صرف عورت یا لڑکی کو ہی کاٹنی ہوتی ہے  بن بیاہی ماں ہونے کی اذیت یا بے باپ لڑکے کی پرورش کی اذیت کی صورت میں۔لڑکوں یامردوں نے تو چندمنٹ میں اپنی تسکین کرلی اور چھپ گئے اگر کبھی پکڑے گئے تو کچھ جرمانہ اداکیا اور اگلی لڑکی پکڑنے کے لئے تیار۔شادی کا آہستہ آہستہ رواج ہی ختم ہوتاجارہاہے ہمارے ایک سابق وزیر کے قول کے مطابق کہ" جب تازہ دودھ مل جائے تو بھینس پالنے کی کیا ضرورت ہے۔"JL
مغربی عورت اپنے ماں باپ سے جلد ہی چھٹکاراحاصل کرلیتی ہے۔ خاص طورپر جب جاب مل جائے، تواپنے آپ کو مرد کے برابرثابت کرنے کے لئے انڈیپنڈینٹ Independent ہونے کی کوشش شروع کردیتی ہیں اوراپناگھر حاصل کرلیتی ہیں ۔شادی کرنے کے لئے عمومی طور پر یورپ  یاامریکہ کا کوئی مقامی شخص  تیارنہیں ہوتا،( الایہ کہ کوئی مشرقی ممالک کاشخص گرین کارڈ حاصل کرنے کے لئے شادی کرلے۔)بس بوائے فرینڈپرگزارا ہوتاہے جو دو تین مہینے بعد تبدیل ہوجاتاہے۔دفترمیں سارادن مرد تنگ کرتے ہیں ،کوئی شاذ ونادر ہی کچھ مغربی خاتون ہوتیں ہیں جنہیں کبھی ریپ سے سابقہ نہ پڑا ہو،مگر دفتر کے علاوہ اور کچھ ہوتابھی نہیں ہے لہذا اس کو برداشت کرناپڑتاہے۔ اگر بے چاری عورت کے بس میں ہوتاتو جتنے بوائے فرینڈچینج کرتی ہے اتنے ہی دفتر بھی چینج کرتی۔
مغرب میں آزادی کایہ نتیجہ نہیں نکلا کہ عورتوں کوکہیں معاشرے میں بہت بڑا مقام مل گیااب بھی عورت ہرشعبے میں مرد کے تحت ہے اور مرد کی رائے کو اس کی رائے پر فوقیت حاصل ہے۔  بس فرق صرف یہ ہے کہ اب مرد کو عورت ہرجگہ ملتی ہے۔مغرب کی عورت کی آزادی کا مطلب  زیادہ صحیح الفاظ میں یہ ہوسکتاہےکہ مرد عورت کو زیادہ آسانی سے اور زیادہ انداز میں ہر جگہ    استعمال کرسکتا ہے۔اور اب اسے عورت سے کوئی روک نہیں سکتا۔البتہ عور ت اب بھی مرد کے تابع اور اس کی دست نگرہے۔ اور عورت کی رائے کو کہیں مرد جتنی اہمیت نہیں ملتی اور نہ اس کے کسی پیشہ میں مرد سے ماہر تصور کیاجاتاہے ۔بلکہ کسی بھی مسئلہ میں خود عورتیں مردوں کو اہمیت دیتی ہیں بنسبت عورت کے ۔
 عورت کابڑھاپا اس کاسب سے بڑا جرم ہے،جہاں اس کو بچے بھی چھوڑچکے ہوتے ہیں اور کوئی مرد بھی دلچسپی نہیں لیتابس ایک عضومعطل کی طرح موت کاانتظاریا خودکشی کرکے موت اکااستقبال ،،عورت کل بھی مظلوم تھی اور آج بھی مظلوم ہے مگر انداز بدل گیاہے ۔۔۔بے چاری عورت!
کیامرد اور عورت مساوی ہیں؟
قابل غور بات یہ ہے کہ کیا واقعی عورت مرد کے مساوی ہےاور مرد کے افعال انجام دے سکتی ہے؟ ہمیں  اس سوال کے جواب  میں دوٍباتوں کی تحقیق  ضروری ہے۔  کیامرد اور عورت کے سوچنے سمجھنے اور حالات کامقابلہ کرنے کی صلاحیتوں میں کوئی فرق ہے اور سوچنے سمجھنے کے اعضاء میں مرد وعورت میں کوئی فر ق ہے یانہیں۔
پہلی بات یہ ہے انسان کے سوچنے اور سمجھنے کی صلاحیت کاتعلق کس عضو سےہے ہمارے معاشرے میں اور سائنس کی رو سے اس کا تعلق دماغ کے ساتھ ہے جب کہ قرآن وحدیث میں اس کااصل تعلق دل کیساتھ قراردیا ہے۔ مایہ ناز مسلم طبیب و فلاسفر ابوالولید محمد بن رشد نے اپنی کتاب الکلیات میں اس موضوع پر تفصیلی بحث کی ہے، انکی بات کاحاصل یہ ہےاگرچہ سوچنے سمجھنے کی مشینری دماغ ہے مگر اس کو چلانے کاکام دل  کرتاہے اور دماغ بمنزلہ آلہ کے ہے۔
سوچنے سمجھنے کاتعلق دل کے ساتھ مانیں یادماغ کے ساتھ ، اللہ تعالی نے مرد کا دل اور دماغ عورت سے قوی بنایاہے۔
Text Box: ہر طرح کی تحقیق کا آخری نتیجہ یہی نکلتاہےکہ عورت مرد کے مقابلے میں اعصابی اور جسمانی  لحاظ سے  بہت کمزور اور نازک ہےاور مرد جتنی مشقت نہیں برداشت کرسکتی البتہ دوسری طرف وہ انسانیت کی معمارہے بچہ جننے جیساپرمشقت کام کرتی ہے حالانکہ  کو ئی مرد بچہ جننے کی نہ صلاحیت رکھتا ہےاور نہ یہ مشقت برداشت کرسکتا۔ کہنے والوں نے صحیح کہا ہے کہ
جس کا کام اسی کو ساجھے۔۔۔۔۔ دوجا کرے تو ڈھینگا باجے
اب اگر یہ کہاجاتاہے کہ ہے کہ عورت کا کام  گھر کے کام کاج اوربچوں کی تربیت کرناہے  باہر سے کما کے لانامرد کاکام ہےاور فریضہ ہے نہ کہ عورت کا۔ اس میں کوئی ہتک نہیں بلکہ بیان ِ حقیقت ہے، کہ عورت کواللہ تعالی نے بہت نرم ونازک اور قیمتی بنایاہےاس کی حفاظت کی ضرورت ہےاور باہرنہ  وہ محفوظ ہےاورنہ  باہر جانا اس کا کام ہے ۔جیسے تمام قیمتی چیزیں سنبھال کررکھی جاتی ہیں۔ مثلاً جسم انسانی کاجہاں حصہ ہڈی یا ناخن ہیں وہیں آنکھیں بھی ہیں۔اگر یہ کہاجائے کہ جوسخت کام ہڈی یاناخن سے لیاجاسکتاہےوہ آنکھ سے نہیں لیا جاسکتا۔یہانتک کہ آنکھ پر رکھ کر ایک جوں بھی نہیں مارسکتے تو یہ آنکھ کی ہتک یا بے عزتی نہیں بلکہ ایک حقیقت کابیاں ہے کہ آنکھ اس کام کے لئے نہیں ۔مرد کے دل کاوزن  Encyclopedia of Britannicaکے بقول 280-340گرام یا10-12اونس ہوتاہے جب کہ جبکہ عورت  کے دل کا وزن 230-280گرام یا 8-10 اونس ہوتاہے۔ بعض ہندوستانی  اطباء کے نزدیک مرد کے دل کا اوسط وزن 425گرام جبکہ عورت کے دل کا اوسط وزن 300گرام ہوتاہے۔
اسی طرح Answer.com میں اس بارے میں لکھا ہے کہ 20سالہ عورت کے دماغ کاوزن 1300گرام کے لگ بھگ ہوتاہے جبکہ اسی عمر کے مرد کے دماغ کاوزن 1450گرام کے لگ بھگ ہوتاہے۔انہوں نے ساتھ ہی اس بات کی وضاحت بھی ضروری سمجھی ہے کہ دماغ بڑا ہونے سے زیادہ عقل مندہونالازم نہیں آتا اور چھوٹے دماغ سے بیوقوف ہونا لازم نہیں آتا۔جبکہ دیسی حکیموں نے مرد کے دماغ کااوسط وزن 135تولہ جبکہ عورت کے دماغ کااوسط وزن 107تولہ لکھاہے۔ البتہ انہوں نے اس بات کی وضاحت کی ہے کہ  زیاد ہ عقل مندوں کے دماغ کاوزن عام وزن سے زیادہ ہوتاہے یہانتک کہ بعض کے دماغ کاوزن 174تولہ تک پایا گیاہے۔
اس کے علاوہ مرد کے ہارمونز میں برداشت اور مصائب کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت زیادہ ہوتی ہے بنسبت عورت کے ،کہ وہ بہت جلد نروس اور پریشان ہوجاتی ہیں اور روناشروع کردیتی ہیں۔  
آٓپ نے دیکھا کہ اللہ تعالی نے اعصابی طور پر مرد کومضبوط بنایاہے جبکہ عورت مرد کے مقابلے میں کمزورہے۔اسی وجہ سے مرد عورت سے زیادہ قوت برداشت، معاملہ فہمی وغیر ہ کی صفات رکھتاہے۔اسی لئے اگرچہ آج عورت ہر فن میں آچکی ہے مگر ہر میدان میں مرد کی مہارت  عورت سے زیادہ تسلیم کی جاتی ہے حتی کہ گائنی کے کیسز میں بھی اب لوگ مرد ڈاکٹروں پر زیادہ اعتماد کرتےہیں ۔
جبکہ وہ فن جن کے ساتھ عورت کاپراناتعلق ہے ، مثلاً کھاناپکانا، کپڑے سینا وغیرہ وغیرہ ان میں بھی مرد حضرات زیادہ مشہور ہیں۔حتی کہ عورتیں بھی اپنا لباس مرد درزی سے سلوانا زیادہ پسندکرتی ہیں بنسبت عورت سے سلوانے کے۔ اپنی فطری ،جسمانی اور طبعی ساخت کی بنا پر مرد عورت سے زیادہ خوداعتماد ،معاملہ فہم اور زیرک ہوتاہےاس سلسلے میں ماہرین ِ جینیا ت کی کچھ تحقیقات جو "20مئی 1972 ء" کے ہفت روزہ ٹائم میں ذکرکی گئی  ہیں نقل کردیتاہوں۔ ہفت روزہ ٹائم کی اصل رپورٹ ملاحظہ ہو؛
Monday, Mar. 20, 1972
Behavior: Male & Female: Differences Between Them
Are women immutably different from men? Women's Liberationists believe that any differences—other than anatomical—are a result of conditioning by society. The opposing view is that all of the differences are fixed in the genes. To scientists, however, the nature-nurture controversy is oversimplified. To them, what human beings are results from a complex interaction between both forces. Says Oxford Biologist Christopher Ounsted: "It is a false dichotomy to say that this difference is acquired and that one genetic. To try and differentiate is like asking a penny whether it is really a heads penny or a tails penny." As Berkeley Psychologist Frank Beach suggests, "Predispositions may be genetic; complex behavior patterns are probably not."
The idea that genetic predispositions exist is based on three kinds of evidence. First, there are the "cultural universals" cited by Margaret Mead. Almost everywhere, the mother is the principal caretaker of the child, and male dominance and aggression are the rule. Some anthropologists believe there has been an occasional female-dominated society; others insist that none have existed.
Sex Typing. Then there is the fact that among most ground-dwelling primates, males are dominant and have as a major function the protection of females and offspring. Some research suggests that this is true even when the young are raised apart from adults, which seems to mean that they do not learn their roles from their society.
Finally, behavioral sex differences show up long before any baby could possibly perceive subtle differences be tween his parents or know which parent he is expected to imitate. "A useful strategy," says Harvard Psychologist Jerome Kagan, "is to assume that the earlier a particular difference appears, the more likely it is to be influenced by biological factors."
Physical differences appear even before birth. The heart of the female fetus often beats faster, and girls develop more rapidly. "Physiologically," says Sociologist Barbette Blackington, "women are better-made animals." Males do have more strength and endurance—though that hardly matters in a technological society.
Recent research hints that there may even be sex differences in the brain. According to some experimenters, the presence of the male hormone testosterone in the fetus may "masculinize" the brain, organizing the fetal nerve centers in characteristic ways. This possible "sex typing" of the central nervous system before birth may make men and women respond differently to incoming stimuli, Sociologist John Gagnon believes.
In fact, newborn girls do show different responses in some situations. They react more strongly to the removal of a blanket and more quickly to touch and pain. Moreover, experiments demonstrate that twelve-week-old girls gaze longer at photographs of faces than at geometric figures. Boys show no preference then, though eventually they pay more attention to figures. Kagan acknowledges the effect of environment, but he has found that it exerts a greater influence on girls than on boys. The female infants who experienced the most "face-to-face interaction" with their mothers were more attentive to faces than girls whose mothers did not exchange looks with them so much. Among boys, there was no consistent relationship.
Internal Organs. As some psychologists see it, this very early female attention to the human face suggests that women may have a greater and even partly innate sensitivity to other human beings. Perhaps this explains why girls seem to get more satisfaction from relationships with people.
Even after infancy, the sexes show differential interests that do not seem to grow solely out of experience. Psychoanalyst Erik Erikson has found that boys and girls aged ten to twelve use space differently when asked to construct a scene with toys.
Girls often build a low wall, sometimes with an elaborate doorway, surrounding a quiet interior scene. Boys are likely to construct towers, facades with cannons, and lively exterior scenes. Erikson acknowledges that cultural influences are at work, but he is convinced that they do not fully explain the nature of children's play. The differences, he says, "seem to parallel the morphology [shape and form] of genital differentiation itself: in the male, an external organ, erectible and intrusive; internal organs in the female, with vestibular access, leading to statically expectant ova."
In aptitude as well as in interest, sex differences become apparent early in life. Though girls are generally less adept than boys at mathematical and spatial reasoning, they learn to count sooner and to talk earlier and better. Some scientists think this female verbal superiority may be caused by sex-linked differences in the brain. Others believe it may exist because, as observation proves, mothers talk to infant girls more than to baby boys. But does the mother's talking cause the child to do likewise, or could it be the other way round? Psychologist Michael Lewis suggests the possibility that girls are talked to more because, for biological reasons, they respond more than boys to words and thus stimulate their mothers to keep talking.
Evidence that parental behavior does affect speech comes from tests made by Kagan among poor Guatemalan children. There, boys are more highly valued than girls, are talked to more and become more verbal. In the U.S., Psychiatrist David Levy has found that boys who are atypically good with words and inept with figures have been overprotected by their mothers. Psychologist Elizabeth Bing has observed that girls who excel at math and spatial problems have often been left to work alone by their mothers, while highly verbal girls have mothers who offer frequent suggestions, praise and criticism.
While girls outdo boys verbally, they often lag behind in solving analytical problems, those that require attention to detail. Girls seem to think "globally," responding to situations as a whole instead of abstracting single elements. In the "rod and frame test," for instance, a subject sits in a dark room before a luminous rod inside a slightly tilted frame, and is asked to move the rod to an upright position. Boys can separate the rod visually from the frame and make it stand straight; girls, misled by the tipped frame, usually adjust the rod not to the true vertical but to a position parallel with the sides of the frame.
In another experiment, children are asked to group related pictures. Boys again pay attention to details, perhaps putting together pictures that show people with an arm raised; girls make functional groupings of, for example, a doctor, a nurse and a wheelchair.
In all such differences, environmental influence is suggested by the fact that children who think analytically most often prove to have mothers who have encouraged initiative and exploration, while youngsters who think globally have generally been tied to their mother's apron strings. In Western society, of course, it is usually boys who are urged toward adventure. Herein, perhaps—there is no proof —lies an explanation for the apparent male capacity to think analytically.
In IQ tests, males and females score pretty much alike. Since this is true, why do women seem less creative? Many social scientists are convinced that the reasons are cultural. Women, they say, learn early in life that female accomplishment brings few rewards. In some cases, women cannot be creative because they are discriminated against. In other instances, a woman's creativity may well be blunted by fear of nonconformity, failure or even success itself (see following story). Unlike men, Kagan says, women are trained to have strong anxiety about being wrong.
To many psychoanalysts, however, the explanation lies in the fact that women possess the greatest creative power of all: bringing new life into being; thus they need not compensate by producing works of art. Men, it is theorized, are driven to make up for what seems to them a deficiency. That they feel keenly, though unconsciously, their inability to bear children is shown in dreams reported on the analyst's couch, in the behavior of small boys who play with dolls and walk around with their stomachs thrust forward in imitation of their pregnant mothers and in primitive rites and ancient myths. According to these myths, presumably conceived by males, Adam delivered Eve from his rib cage, Zeus gave birth to Athena out of his head, and when Semele was burned to death, Zeus seized Dionysus from her womb and sewed him up in his thigh until the infant had developed.
There are personality differences between the sexes too. Although no trait is confined to one sex—there are women who exceed the male average even in supposedly masculine characteristics—some distinctions turn up remarkably early. At New York University, for example, researchers have found that a female infant stops sucking a bottle and looks up when someone comes into the room; a male pays no attention to the visitor.
Another Kagan experiment shows that girls of twelve months who become frightened in a strange room drift toward their mothers, while boys look for something interesting to do. At four months, twice as many girls as boys cry when frightened in a strange laboratory. What is more, Kagan says, similar differences can be seen in monkeys and baboons, which "forces us to consider the possibility that some of the psychological differences between men and women may not be the product of experience alone but of subtle biological differences."
Female Passivity. Many researchers have found greater dependence and docility in very young girls, greater autonomy and activity in boys. When a barrier is set up to separate youngsters from their mothers, boys try to knock it down; girls cry helplessly. There is little doubt that maternal encouragement —or discouragement—of such behavior plays a major role in determining adult personality. For example, a mother often stimulates male autonomy by throwing a toy far away from her young son, thus tacitly suggesting to him that he leave her to get it.
Animal studies suggest that there may be a biological factor in maternal behavior; mothers of rhesus monkeys punish their male babies earlier and more often than their female offspring; they also touch their female babies more often and act more protective toward them.
As for the controversial question of female "passivity," Psychoanalyst Helene Deutsch believes that the concept has been misunderstood. "There is no contradiction between being feminine and working. The ego can be active in both men and women," she says. It is only in love and in sex that passivity is particularly appropriate for women. As she sees it, passivity is no more than a kind of openness and warmth; it does not mean "inactivity, emptiness or immobility."
Another controversy rages over the effect of hormones. Militant women, who discount hormonal influence, disagree violently with scientific researchers, who almost unanimously agree that hormones help determine how people feel and act. So far, there have been few studies of male hormones, but scientists think they may eventually discover hormonal cycles in men that produce cyclic changes in mood and behavior. As for females, studies have indicated that 49% of female medical and surgical hospital admissions, most psychiatric hospital admissions and 62% of violent crimes among women prisoners occur on premenstrual and menstrual days. At Worcester State Hospital in Massachusetts, Psychologists Donald and Inge Broverman have found that estrogen sharpens sensory perception. They believe that this heightened sensitivity may lead more women than men to shy away from situations of stress.
Fierce Bulls. One trait thought to be affected by hormones is aggressiveness. In all cultures, investigators report, male infants tend to play more aggressively than females. While scientists think a genetic factor may be involved, they also observe that society fosters the difference by permitting male aggression and encouraging female adaptability. Some suggest that females may be as aggressive as men —but with words instead of deeds.
The definitive research on hormones and aggression is still to be done. However, it has been established that the female hormone estrogen inhibits aggression in both animal and human males. It has also been proved that the male hormone androgen influences aggression in animals. For example, castration produces tractable steers rather than fierce bulls.
The influence of androgen begins even before birth. Administered to pregnant primates, the hormone makes newborn females play more aggressively than ordinary females. Moreover, such masculinized animals are unusually aggressive as long as they live, even if they are never again exposed to androgen.
According to some experts, this long-lasting effect of hormones administered or secreted before birth may help explain why boys are more aggressive than girls even during their early years when both sexes appear to produce equal amounts of male and female hormones. Other observers have suggested that the spurt in male-hormone production at puberty could be one of the causes of delinquency in adolescent boys, but there is no proof that this is so.
Will there some day be a "unisex" society with no differences between men and women, except anatomical ones? It seems unlikely. Anatomy, parturition and gender, observes Psychologist Joseph Adelson, cannot be wished away "in a spasm of the distended will, as though the will, in pursuit of total human possibility, can amplify itself to overcome the given." Or, as Psychoanalyst Therese Benedek sees it, "biology precedes personality."
"Nature has been the oppressor," observes Michael Lewis. Women's role as caretaker "was the evolutionary result of their biological role in birth and feeding." The baby bottle has freed women from some of the tasks of that role, but, says University of Michigan Psychologist Judith Bardwick, "the major responsibility for child rearing is the woman's, even in the Soviet Union, the Israeli kibbutz, Scandinavia and mainland China."
Furthermore, though mothering skills are mostly learned, it is a fact that if animals are raised in isolation and then put in a room with the young of the species, it is the females who go to the infants and take care of them.
"Perhaps the known biological differences can be totally overcome, and society can approach a state in which a person's sex is of no consequence for any significant activity except child-bearing," admits Jerome Kagan. "But we must ask if such a society will be satisfying to its members." As he sees it, "complementarity" is what makes relationships stable and pleasurable.
Psychoanalyst Martin Symonds agrees. "The basic reason why unisex must fail is that in the sexual act itself, the man has to be assertive, if tenderly, and the woman has to be receptive. What gives trouble is when men see assertiveness as aggression and women see receptiveness as submission." Unisex, he sums up, would be "a disaster," because children need roles to identify with and rebel against. "You can't identify with a blur. A unisex world would be a frictionless environment in which nobody would be able to grow up."
The crucial point is that a difference is not a deficiency. As Biologist Ounsted puts it, "We are all human beings and in this sense equal. We are not, however, the same." In the opinion of John Money, "You can play fair only if you recognize and respect authentic differences."

مفہوم
"کیاعورت حقیقتا مرد سے مختلف ہے یا یہ معاشرتی تقسیم کانتیجہ ہے ۔؟ آزادیٔ نسوں کے علمبرداروں کا کہنا ہے کہ یہ فرق صرف معاشرے اور سوسائٹی کے امتیازی سلوک کا نتیجہ ہے۔ جبکہ اس  نظریےکے مخالفین کا نظریہ یہ ہے کہ یہ  فرق فطرتا مرد اور عورت کی ساخت میں رکھا گیاہے۔
یہ نظریہ "کہ  مرد اور عورت میں جینیاتی فرق ہوتاہے"کی بنیاد تین باتوں پر ہے۔
1:عالمی کلچر:
پوری دنیاکی تمام تہذیبوں اور تمام زمانوں میں یہ اصول رہا ہے کہ عورت بچوں کی پرورش کرتی ہےجبکہ مرد حکمران رہاہےبعض لوگوں کاخیال ہے کہ کبھی ماضی میں عورتوں کابھی معاشرے میں غلبہ رہاہے ،مگردوسرے لوگ اس کاشدت کے ساتھ انکار کرتے ہیں کیونکہ تاریخی طور پر اس کے برعکس ثابت ہے۔
2جنسی فرق:
دوسری حقیقت یہ ہےکہ زمیں پر پائے جانے والےبیشتر حیوانات میں نر ہی غالب ہوتاہے۔ وہ مادہ اور بچوں کی حفاظت کرتا ہے۔ تحقیقات سے معلوم ہو ا ہے کہ یہ صورت حال اس وقت بھی باقی رہتی ہےجب کہ کسی جانور کے بچوں کو شروع ہی میں الگ کر کے پرورش کی جائے اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ اپنا صنفی عمل اپنے معاشرے سے نہیں سیکھتے۔
آخری بات یہ کہ صنفی فرق کردار میں بچپن میں اس سے بہت پہلے ظاہر ہوجاتاہے جب کہ ایک بچہ امکانی طور پر ماں اور باپ کا فرق سمجھتاہو۔ یا یہ جان سکے کہ والدین میں سے کس کی اسے نقل کرنی چاہئے ۔ ایک سائنس دان نے کہا ہے کہ زیادہ بہتر مفروضہ یہ ہے کہ ہم یہ مانیں کہ صنفی فرق کے پیچھے حیاتیاتی عوامل کام کررہے ہیں۔ طبیعاتی فرق پیدائش سے بھی پہلے ظاہر ہوجاتےہیں ۔ بچہ جب ابتدائی حالت میں رحم کے اند ر ہوتاہےاس وقت دیکھا گیا ہے کہ بچی کا دل اکثرزیادہ تیزی سے دھڑکتاہے۔ ایک سوشیالو جسٹ نے کہا ہے کہ عورت زیادہ بہتر تخلیق کا نمونہ ہے۔ مرد زیادہ طاقت ور اور متحمل ہوسکتےہیں۔
حالیہ تحقیقات بتاتی ہیں کہ عورتوں اور مردوں کے دماغ میں بھی صنفی فرق ہوسکتے ہیں۔  کچھ تجربہ کرنے والوں کے نزدیک رحم کے ابتدائی جرثومہ کے اندر مردانہ ہارمون کی موجودگی اس کے دماغ کو جنس مذکربنانے کا سبب ہوتی ہے۔ پیدائش سے پہلے مرکزی اعصابی نظام میں یہ جنسیت مردوں اور عورتوں کے اندرونی احساسات میں فرق پیدا کرسکتی ہے۔ سوشیالوجسٹ جان گیکگن کا کہنا ہے کہ درحقیقت بعض حالات میں نومولود لڑ کیا ں مختلف قسم کے تاثرات ظاہر کرتی ہیں، ان کو چھوا جائے یاان کے اوپر سے کپڑا ہٹائیں تو بہت تیزی سے ان پر اس کا ردعمل ظاہر ہوتاہے۔ مزید یہ کہ تجربات بتاتے ہیں کہ بارہ ہفتہ کی لڑکیا ں جیومیٹری کی اشکال کے مقابلہ میں چہروں کی تصویروں کو زیادہ دیرتک دیکھتی ہیں۔ لڑکے اس قسم کا فرق نہیں کرتے۔ اگرچہ بالآخر وہ جیومیٹری کی اشکال کو زیادہ متوجہ ہوکر دیکھتےہیں۔
تجربہ کیا گیاہےہے کہ اگر کھیل کے ٹکڑوں سے گھر بنانے کاکہاجائے تو دس سے بارہ سال کی لڑکیاں گھر کے اندرونی حصے کو عمدہ بنانے کی کوشش کرتی ہیں جب کہ اسی عمر کے لڑکے گھر کے بیرونی حصے کو عمدہ بنانے کی کوشش کرتےہیں۔علمائے حیاتیات کا خیال ہے کہ یہ فرق دونوں صنفوں کے درمیان جنیاتی فرق کی بناپر ہوسکتاہے۔
لڑکے اور لڑکیوں کے IQٹیسٹ میں یہ بات سامنے آئی کہ لڑکیاں ، لڑکوں کے مقابلے میں گننا یابولنا زیادہ جلد سیکھ لیتی ہیں،یعنی لفظی معاملہ میں لڑکیاں مردوں سے آگے ہیں جب کہ وہ تجزیاتی سوالات کو حل کرنے میں لڑکوں سے پیچھے رہتی ہیں۔ (یہی وجہ ہے کہ اسکولوں اور مدارس میں لڑکیاں استاد کی تقریر کو ہوبہورٹ لیتی ہیں جب کہ لڑکے اس کام میں لڑکیوں کامقابلہ نہیں کرسکتے ،البتہ کسی بات کاتجز یہ کرنے اور اس کی تہہ تک جانے میں لڑکیاں لڑکوں کامقابلہ نہیں کرسکتیں،مدارس میں تو یہ بات واضح ہے اور کالجوں میں بھی ہوسکتی ہے  بشرطیکہ لڑکے لڑکیوں کے علاوہ کتابوں کا بھی مطالعہ شروع کردیں تو!( Jمختلف قسم کےٹیسٹوں سے ثابت ہوا ہے کہ عورتیں مردوں کے مقابلے میں تخلیقی صلاحیتیں کم رکھتی ہیں۔اکثر سوشل سائنٹسٹ خیال کرتے ہیں کہ اس کی وجہ کلچرہے۔
 عورتوں اور مردوں میں شخصیت کا فرق بھی پایاگیاہے۔ مثال کے طور پر نیویارک یونیورسٹی میں ریسرچ کرنے والوں نے دیکھا کہ ایک لڑکی اگر بوتل پینے میں مشغول ہے تو وہ اس وقت پینے سے رک جاتی ہے جب کہ کوئی شخص کمرے میں آتا ہوا نظر آئے ، جب کہ ایک لڑکاکسی آنے والے پر دھیان نہیں دیتا۔اسی طرح کاگن کے تجربہ میں پایاگیاکہ بارہ ماہ کی لڑکیاں جب کسی اجنبی کمرے میں ہوں اور انہیں خوف زدہ کیا جائے تو وہ اپنی ماؤں کی طرف دوڑتی ہیں جب کہ اسی عمر کے لڑکےکچھ کرنے کی راہ سوچتےہیں۔اسی طرح چار ماہ کی لڑکیاں کسی لیبارٹری میں خوف زدہ کی جائیں تو وہ اسی عمر کے لڑکوں کے مقابلے میں دوگناچلاتی ہیں،مزید یہ کہ یہی فرق بندر کے بچوں میں ہوتاہے۔چنانچہ کاگن نے کہا ہے کہ یہ واقعہ ہم کو یہ ماننے پر مجبور کرتاہے کہ مردوں اور عورتوں میں بعض نفسیاتی فرق کا امکان محض معاشرتی تجربات کی بناپر نہیں ہوسکتابلکہ وہ لطیف قسم کے حیاتیاتی فرق کی پیداوار ہے۔
اکثر ریسرچ کرنے والوں نے پایا کہ چھوٹی لڑکیوں میں انحصار کامادہ زیادہ پایاجاتاہے بنسبت اسی عمرکے لڑکوں کےکہ ان میں خود مختاری کامادہ زیادہ پایاجاتاہے۔ اگر بچوں اور ماں کے درمیان کو ئی روکاوٹ حائل کردی جائے تو لڑکے اس کوہٹانے کی کوشش کرتےہیں جبکہ لڑکیاں چلانا شروع کردیتی ہیں۔
عورتوں کی انفعالیت ایک بحث کا موضوع رہاہے ۔ اسی طرح دوسرا زیر بحث مسئلہ ہارمون کے اثر کاہے۔ اس سلسلے میں سائنٹفک محققین کے نتائج سے زیادہ تر بعض خواتین نے اختلاف کیاہےجو عورتوں کی انفعالیت یا ہارمون کے اثر کو ماننے کے لئے تیار نہیں۔ جہاں تک سائنسی محققین کاسوال ہے انہوں نے تقریبااجتماعی طور پر اتفاق کیا ہے کہ ہارمون ہی یہ فیصلہ کرتےہیں کہ لوگ  کس طرح محسوس کریں اور کس طرح عمل کریں۔ عورتوں  میں جو بڑھتی ہوئی تاثرپذیری پائی گئی ہے اس کی بناپر محققین کا خیال ہے کہ مردوں کے مقابلہ میں عورتیں سخت حالات میں زیادہ جھجھک والی ثابت ہوتی ہیں۔
محققین کا کہنا ہے کہ تمام کلچر میں مرد عورتوں کے مقابلے میں زیادہ جارح پائے گئے یہ بھی غالباً دونوں صنفوں کے ہارمون میں فرق ہونے کانتیجہ ہےیعنی اس کے پیچھے جنینی عامل کام کررہاہے۔ بعضوں کاخیال ہے کہ عورتیں بھی مردوں ہی کی طرح جارح ہوسکتی ہیں ۔ البتہ ان کی جارحیت عملی کی بجائے لفظی ہوگی۔
لڑکوں اور لڑکیوں میں یہ فرق اس وقت بھی ہوتاہےجب کہ وہ ابھی ماں کے پیٹ میں ہوتےہیں۔ کیا کبھی ایساہوسکتاہے کہ صنفی مساوات کاسماج قائم ہوجائے جہاں مردوں اور عورتوں میں کوئی فرق نہ ہوسوائے جسمانی فرق کے۔ یہ بظاہر ناممکن معلوم ہوتاہے۔ ہارمون ااور جارحیت کے بارے میں آخری تحقیق ابھی باقی ہے۔ تاہم یہ بات ثات ہوچکی ہےکہ میل ہارمون اور فیمیل ہارمون میں فرق ہے۔ اور یہ فرق پیدائش سے پہلے بالکل آغاز حیات میں موجود رہتاہے تجربات میں دیکھا گیاہے کہ نر حیوانات کو اگر الگ بند کرکے رکھا جا ئے تب بھی وہ آخر تک جارح رہتے ہیں۔
ماہر نفسیات بنڈک نے کہا ہے کہ حیاتیات شخصیت پر سبقت لے جاتی ہے۔ عورت کے مقابلہ میں مرد میں غالب خصوصیا ت ہونا سابق تصور کے مطابق کلچر کے بجائے خودفطرت سے اس درجہ وابستہ ہے کہ میکائیل لیوس کے الفاظ ہیں :قدرت ظالم ہے۔ عورت کا رول بحیثیت گھریلو خاتون ان کے حیاتیاتی عمل کاارتقائی نتیجہ ہے۔ دودھ کی بوتل نے عورت کو اس کے بعض کاموں رہائی کے دے دی ہے۔ مگر یونیورسٹی آف مشی گان کے عالم نفسیات بوڈت بارڈوک نے کہا 'بچہ کی نگہداشت کی بڑی ذمہ داری اب بھی عورت پر ہی عائد ہوتی ہے، حتی کہ روس اور دوسرے کمیونسٹ ممالک میں بھی ۔
کہاجاتاہےکہ مادری مہارت زیادہ تر اکتسابی چیز ہے مگر یہ حقیقت ہے کہ اگر جانوروں کو تنہائی میں رکھا جائےاور اس کے بعد کسی ایسے کمرہ میں ان کو لےجایا جائے جہاں ان کی نوع کے بچے ہوں تو مادہ حیوانات ہی بچوں کے پاس جاتی ہیں اور ان کی دیکھ بھال  میں لگ جاتی ہیں۔
جیروم کاگن کہتاہے عورت اور مرد کے حیاتیاتی  فرق غالباً مکمل طور پر ختم کئے جاسکتے ہیں اور ایسا سماج بنایا جاسکتاہے جس میں کسی صنف کی کوئی اہمیت نہ رہےسوا مادری ذمہ داری کے ۔ مگر ہمیں سوچنا چاہئے کہ کیا ایسا سماج اس کے افراد کو مطمئن کرسکے گا؟ اس نزدیک لین دین ہی وہ چیز ہے جو افراد کے درمیان تعلقات کو مستحکم اور پر مسر ت بناتی ہے۔
عالم ِ نفسیات مارٹن سائمنڈ کہتاہے بنیادی وجہ جس کی بنا پر صنفی یکسانیت ناکا م رہے گی یہ ہے کہ خود جنسی عمل میں مرد دینے والا ہوتاہےاور عورت قبول کرنے والی ہوتی ہے۔( جس سے دونوںمیں ترقی کی خواہش پیدا ہوتی ہے) مسئلہ اس وقت بنتاہے جب مرد دینے والے ہونے کی وجہ سے اپنے آپ کو حاکم اور عورت لینے والی ہونے کی وجہ سے خود کو محکوم سمجھنے لگ جائے۔  اگر صنفی یکسانیت پیدا  کی جائے تو سماج میں کشاکش نہیں ہوگی جو صحت مند معاشرے کے ارتقا ء کے لئے ضروری ہے
اہم بات یہ ہے کہ فرق ہو نا نقص کی بات نہیں ہے: عالم حیاتیات آؤن سٹڈ نے کہاہے :'ہم سب انسانی وجود ہیں اور اس اعتبار سے برابر ہیں مگر سب یکساں نہیں۔ دوسرے عالم حیاتیات جان منی کے نزدیک آپ صرف اس وقت صحیح عمل کرسکتے ہیں جب کہ مسلمہ فرق کو مانیں اور اس کااحترام کریں"
ہر طرح کی تحقیق کا آخری نتیجہ یہی نکلتاہےکہ عورت مرد کے مقابلے میں اعصابی اور جسمانی  لحاظ سے  بہت کمزور اور نازک ہےاور مرد جتنی مشقت نہیں برداشت کرسکتی البتہ دوسری طرف وہ انسانیت کی معمارہے بچہ جننے جیساپرمشقت کام کرتی ہے حالانکہ  کو ئی مرد بچہ جننے کی نہ صلاحیت رکھتا ہےاور نہ یہ مشقت برداشت کرسکتا۔ کہنے والوں نے صحیح کہا ہے کہ
جس کا کام اسی کو ساجھے۔۔۔۔۔۔۔ دوجا کرے تو ڈھینگا باجے
اب اگر یہ کہاجاتاہے کہ ہے کہ عورت کا کام  گھر کے کام کاج اوربچوں کی تربیت کرناہے  باہر سے کما کے لانامرد کاکام ہےاور فریضہ ہے نہ کہ عورت کا۔ اس میں کوئی ہتک نہیں بلکہ بیان ِ حقیقت ہے، کہ عورت کواللہ تعالی نے بہت نرم ونازک اور قیمتی بنایاہےاس کی حفاظت کی ضرورت ہےاور باہرنہ  وہ محفوظ ہےاورنہ  باہر جانا اس کا کام ہے ۔جیسے تمام قیمتی چیزیں سنبھال کررکھی جاتی ہیں۔ مثلاً جسم انسانی کاجہاں حصہ ہڈی یا ناخن ہیں وہیں آنکھیں بھی ہیں۔اگر یہ کہاجائے کہ جوسخت کام ہڈی یاناخن سے لیاجاسکتاہےوہ آنکھ سے نہیں لیا جاسکتا۔یہانتک کہ آنکھ پر رکھ کر ایک جوں بھی نہیں مارسکتے تو یہ آنکھ کی ہتک یا بے عزتی نہیں بلکہ ایک حقیقت کابیاں ہے کہ آنکھ اس کام کے لئے نہیں ۔
مساوات کانعرہ کہاں سے آیا
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب عورت پوری دنیا میں دبی ہوئی تھی اور عورت ہے بھی کمزور تو آخر یہ مساوات کا نعرہ کس نے اٹھایا اور کیوں اٹھایا؟
اس کا جواب بدنام زمانہ یہودی پروٹوکولز  یہودی منصوبہ کے پہلے پروٹوکول میں لکھا ہوا ہے۔
26. In all corners of the earth the words "Liberty, Equality, Fraternity," brought to our ranks, thanks to our blind agents, whole legions who bore our banners with enthusiasm. And all the time these words were canker-worms at work boring into the well-being of the GOYIM, putting an end everywhere to peace, quiet, solidarity and destroying all the foundations of the GOY States. As you will see later, this helped us to our triumph:
مفہوم
آ زادی Liberty،مساوات Equality،اور بھائی چارہ Fraternityکا جو نعرہ ہم نے لگایاہے اور ہمارے اندھے ایجنٹوں نے اسے دنیا کے کونے کونے تک پہنچایاہے، ہم ان کے شکر گزار ہیں ۔
یہ الفاظ ہردور میں دیمک کی طرح غیر یہود کی فلاح وبہبود کو چاٹتے رہیں گے اور سکون برباد کرکے ان کی مملکتوں کی جڑیں کھوکھلی کرتے رہیں گے۔اور یہی ہماری فتح کاسبب بنےگے۔
اس سے معلو م ہو ا کہ اس نعرےکو اٹھانے میں اصل ہاتھ یہودیوں کاتھا، اگرچہ غیریہودی بھی ناسمجھی میں ان کی تقلید میں یہی نعرے لگانے لگ گئے اور یہود کاکام آسان کردیا۔

عورت  کی اصل عزت
عورت کو جو عزت،احترام، مقام ومرتبہ  اسلام نے دیاہے نہ  وہ اسلام سے پہلے کسی مذہب معاشرے تہذیب یا رسم ورواج نے دیاتھا اور نہ بعد میں کسی نے دیاہے ۔
اسلام نے عورت کو  اتنامقدس قرار دیا کہ اگر یہ تصورات اسلام کے علاوہ کسی اور مذہب یا معاشرے میں ہوتے تو وہ شاید عورت کو اپنا دیوتاسمجھ لیتے۔ اسلام نے عورت کو گھر کی ملکہ قرار دیاہےاور اس کے لئے کماکے لانامر د کافرض قرار دیاہے، جب تک اس کے خاندان کاکوئی ایک مرد بھی زندہ ہے اسلام اس مرد کوعورت کی ضروریات پورا کرنے کا ذمہ دار بناتاہے۔سب سے پہلے عورت کاشوہر اس کے نان نفقہ سکنی وغیرہ کاذمہ دار ہے اگر شوہر نہ ہو توبیٹاپھر باپ پھر بھائی پھر  دادا پھرچچا وغیرہ ۔ اگر خاندان کا کوئی مرد بھی موجود ہے تو عورت کانان نفقہ اس مرد کی ذمہ داری ہے۔
سفر وغیر ہ میں عورت کی حفاظت مرد کی ذمہ داری ہے گو یا کہ مرد کو اس کا باڈی گارڈ قرار دیا گیاہے ۔(آزادی نسواں کے نعرے سے یہودیوں کا اصل مقصد اس باڈی گارڈ کوسائیڈ میں کرناہے تاکہ جہاں چاہاعورت کو پکڑ کر اپنی پیاس بجھائی جاسکےجیسا کہ یورپ میں برسرعام ہونا شروع ہوچکاہے۔) عورت کے لئے اس باڈی گارڈ کے نہ ہونے کی صورت میں حج جیسا فریضہ  بھی ان پر عائد نہیں ہوتاحالانکہ جس کےنہ کرنے پربڑی سخت وعیدیں آئیں ہیں حضور نے فرمایا کہ جوطاقت رکھتے ہوئے حج نہ کرے  وہ خواہ یہودی ہوکر مرے یانصرانی ہوکرمجھے کوئی پرواہ نہیں۔ اسلام نے عورت کے لئے اپنی ہرقریبی رشتہ دار کی میراث میں حصہ رکھالیکن چونکہ عورت پر کمانے کی ذمہ داری نہیں اس لئے اس کاحصہ مرد سے کم رکھاکیونکہ عورت کو نان نفقہ تو مر دنے دیناہےاس کوکمانانہیں بلکہ یہ مرد پر لاز م ہے کہ وہ اپنے لئے بھی کمائے اور اپنے محرم رشتہ دارعورتوں کے لئے بھی۔
عورت کسی بھی مرد کے سامنے اسلامی لحاظ سےپانچ حیثیتوں میں سے کسی ایک میں ہوگی۔1۔ماں ؛2۔بہن ؛3۔بیٹی؛4۔بیوی ؛5۔اجنبی۔
اگر عورت ماں کی شکل میں ہے تواسلام اس کے قدموں میں جنت قرار دیتاہے۔ ماں کاحق باپ کی بنسبت 3گنازیادہ بتاتاہے۔اس کی خدمت اولاد کا فرض قرار دیتاہے۔اس کے سامنے اف تک کہنے کی اجازت نہیں دیتا، اس کادل دکھاناحرام قراردیتاہے۔اور اگر ماں کے ہوتے ہوئے کوئی اولاد اس کی خدمت کر کے جنت میں داخل نہ ہوسکے تو آپ ﷺ نے ایسے بدنصیب کے خلاف بددعافرمائی ہے۔ ماں اگر مشرک بھی ہواس کی تعظیم فرض ہے، اس کی اطاعت فرض ہے الایہ کہ گناہ کاحکم دے۔
اگر عورت بیٹی  کی صورت میں ہے تو اسلام اس کی بہتر تربیت کرنے کو جنت میں داخلے کاسبب قرار دیتاہے۔لڑکی کوباعث رحمت قرار دیاہے۔اگر کسی کی جتنی زیادہ لڑکیاں ہوں اور وہ ان کی صحیح تعلیم وتربیت کرے اس کے اتنے ہی فضائل بیان فرمائے گئے اسی طر ح اگر بہن کی صورت میں ہے اس کے بھی یہ فضائل ہیں نیزعورت پہ ہاتھ اٹھانے سے منع کیاگیاہے۔
اگر عورت بیوی کی شکل میں ہے تو اس کوخوش کرنا،اس کی تعریف کرنا، اس سے بوس وکنار کرنا،اس سے استمتاع کرنا، اس کے منہ  میں پیار سے لقمہ دینا ان تمام چیز وں کو نیکی شمار کیا گیاہے۔یہانتک کے بیوی کی ناراضگی سے بچنے کے لئے جھوٹ بولنے کی بھی اجازت دی گئی حالانکہ جھوٹ اسلام میں اتنابڑا گناہ ہے کہ مسلمان سے اس  کا تصور بھی بعید قرار دیاگیاہے ۔عورتوں کو مارنے کی اسلام شدید مذمت کرتاہے آپ ﷺ نے فرمایا جس کامفہوم ہے کہ عورتوں کو مارنے والے ہمارے اچھے لوگ نہیں ہیں۔
اسلام ایک پاکیزہ معاشرہ قائم کرنے کے لئےاولاً تو جلدی شادی پر زور دیتاہے اور عیسائیت کے برخلاف شادی کرنے کو باعث ثواب قرار دیتاہےپھر  بیوی کےبارے میں  خصوصاجتنی باتوں کی تاکید کرتاہے کسی اور تہذیب میں اس کا تصور بھی نہیں مرد کے ذمے عورت کانان نفقہ سکنی اور جیب خرچ لاز م ہے۔جب کہ عورت کہ ذمہ اصلاصرف شوہر کو اس کی خواہش پورا کرنے دینا ہے۔ حتی کہ امام ابوحنیفہ کے نزدیک عورت پر گھریلوکام کاج بھی ضابطہ میں ضروری نہیں البتہ  رسم ورواج اور رابطہ کی وجہ سے عورت کو یہ کرنے چاہئے جب کہ دیگر ائمہ عورت پر گھریلوکام کاج  اور بچے کی پر ورش ضروری قرار دیتےہیں۔اگر کسی کو نیک بیوی میسر آجائے تو اسلام اس کو دنیا کا سب سے قیمتی سرمایہ قرار دیتاہے،حدیث پاک میں ہے الدنیا کلہامتاع وخیرمتاع الدنیاالمرأۃ الصالحہ۔
اور اگر عورت اجنبی ہے تو اسلام اس کا احتر ام کرنے کاحکم دیتاہے اس کی طرف' پاک' نظر اٹھاکر دیکھنے کو بھی منع کرتاہے۔
عورتوں کوجہاں ایک طرف گھر داری کاحکم دیتاہے وہیں اسےضروری تعلیم وتر بیت کابھی حکم دیتاہے۔ البتہ کمانے کاکام مرد کےلئے مختص کیاگیاہے البتہ ایسی جابز اور تعلیم جس میں عورتوں کامرد سے اختلاط نہ ہو اسلام ان کی اجازت دیتا ہےاور جن میں مرد کے ساتھ اختلاط لازم آئے اسلام  ان کوعورتوں کے لئے اچھا نہیں سمجھتا۔
خلاصہ
عورتوں کو حقوق نسواں ، آزادی ٔ نسواں ، اور مساوات کے نام پر گھروں سے نکالنےاور نیم برہنہ کرنے  کاکام تو یہودیوں نے کیااور عورت بڑی آسانی سے الوبن گئی اب وہ بچے بھی دیتے اور کماتی بھی ہے اورہر جگہ مرد کومحظوظ بھی کرتی ہے اس کی مسکراہٹ اور نیم عریاں جسم سے جعلی چیز بھی ہاتھوں ہاتھ بک جاتی ہےاور مشرقی مر د پھر مسلمان بھی ہووہ اپنی ماں ، بہن ،بیٹی ، بیوی سے دوروپے کموانے کےلئے اپنی غیر ت اور مشرقیت کاسودا کرنے کے لئے تیار ہوگیا ہے ۔ مرد خاموش ہے کیونکہ بنیے کے نقطہ نظر کے مطابق کچھ آہی رہاہے جا تو کچھ نہیں رہا۔اگر غیر ت چلی گئی تو کیاہے کمائی تو آرہی ہے۔
کسی مغل بادشاہ غالباً شاہجہان او ر اس کی ملکہ نورجہان کاواقعہ ہےکہ ملکہ بادشاہ کے ساتھ بگھی میں کھلے منہ بیٹھ کر شام کو سیر کوجاتی تھی ،سارے مرد اس کو کھڑا ہوہو کہ دیکھتے تھے ۔ بادشاہ کو بڑی غیرت آتی مگر محبوب بیوی کو کہہ نہیں سکتاتھا ایک دن اس سے کسی نے دیوث کامعنی پوچھا تو اس نے کہاشام کو جب میں بیوی کے ساتھ سیر کو جانے کےلئے بگھی میں بیٹھوں اس وقت آکر پوچھنا اس شخص نے شام کو حسب ارشاد سیر کو جانے کے وقت اپنا سوال دھرایاکہ دیوث کسے کہتے ہیں؟ بادشاہ نے بیگم کی طرف منہ کرکے کہاکہ دیوث مجھے کہتےہیں کہ میری بیوی سب کے سامنے منہ کھولے بیٹھی ہے لو گ میری بیوی کے چہرے سے میرے سامنے لطف اندوز ہورہے ہیں مگر میں اسے روک نہیں سکتا
اکبرالہ آبادی نے کیا خوب کہاہے؛
بے پر دہ نظر آئیں جو کل چند بیبیاں ۔۔ اکبر زمیں میں غیر ت قومی سے گڑ گیا
پوچھا آپ کا پر دہ وہ کیا ہوا۔۔ کہنے لگیں عقل پہ مر د وں کے چڑھ گیا


No comments:

Post a Comment