ایک عید یا دو عید
آج کے دور کی مسلم دنیا کے لئے رؤیت ِ ہلال ایک دردِ سر بن چکا ہے جس کی وجہ سے پوری دنیا میں مسلمانوں کی جگ ہنسائی ہورہی ہے ۔ ہمارے ہاں ہرسال دو چاندوں کا جھگڑا چلتارہتاہے۔ اور خاص طور پر یورپ میں چھٹی کے معاملے میں مسلمانوں کی از حد تضحیک ہوتی، کہ پہلے دن والی عید کی چھٹی چاہئے یا دوسرے دن کی عید کی چھٹی چاہئے ۔میں کو ئی بہت زیادہ فلکیات دانی کا مدعی نہیں ہوں مگر کامن سینس کے لحاظ سے اس مسئلہ کے لطیفہ بننے پر بہت زیادہ حیران ہوں۔ میرے خیال میں اگر ہم چند باتوں پر غور کریں اور نتیجہ طے کرلیں تو مسئلہ بہت ہی سہولت سے حل ہوجائے۔۱۔ شمسی تقویم کے لئے پوری دنیا میں گرین وچ کا ٹائم معیار ہے مگر ڈیٹ لائن براعظم امریکا اور ایشیا کے درمیان طے کی گئی ہے۔سب سے پہلے نیوزی لینڈ یا جاپان میں رات کے بارہ بجنے سے تاریخ تبدیل ہوجاتی ہے اسکے بعد اس کے مغرب کے علاقوں میں ایک ایک گھنٹہ کے فاصلے سے تاریخ بدلنا شروع ہوجاتی ہے۔ یہ بات سب کو معلوم ہے کہ دنیا گول یا بیضوی ہے اور جس جس علاقے کے سامنے سورج حساب کے مطابق آتاجاتاہے وہاں ٹائم بدلتاجاتاہے ۔ ہمارے قریبی علاقوں میں پہلے بنگلہ دیش میں بارہ بجتے ہیں تاریخ تبدیل ہوتی ہے پھر آدھا گھنٹے بعد انڈیا میں بارہ بجتے ہیں اور تاریخ بدلتی ہے۔ اور پھر آدھاگھنٹے بعد ہمارے ہا ں تاریخ بدلتی ہے سعودیہ میں ہم سے دو گھنٹے بعد تاریخ بدلتی ہے اس طرح سلسلہ چلتا جاتا ہے حتی کہ نیوزی لینڈ کے مشرق میں صرف ایک گھنٹے کے فاصلےپر موجود امریکی شہر میں تئیس گھنٹے بعد تاریخ بدلتی ہے۔ ان دونوں کے درمیان ایک ایسی لکیر تسلیم کی گئ ہے کہ اس لکیر کومشرق کی طرف پار کرلے تو وہ ایک تاریخ پیچھے چلا جاتاہے اور اگر مغرب کی طرف چلا جائے تو ایک دن آگے پہنچ جاتا ہے ۔ زیادہ واضح الفاظ میں اگر ایک شخص نیوزی لینڈ میں ۲۵ دسمبر کو کرسمس منا کر بائیس گھنٹے بعد مشرق میں امریکا کی طرف اس لکیر کو پار کرلے تو دوبارہ کرسمس منا سکتاہے۔ او ر اس کے برعکس کوئی شخص امریکا سے ۲۴ دسمبر کا سارا دن گزار کررات کے گیارہ بجے امریکا سےمغرب کی طرف نیوزی لینڈ یا جاپان میں چلا جائے تو وہ کسی جگہ کی کرسمس میں شرکت نہیں کرسکتا۔( یہ وہی مسئلہ جیسے ہمارے بعض حضرات جو سعودیہ سے آتے ہیں تو انہیں ایک روزہ زیادہ رکھنا پڑتاہے یا یہاں سے سعودیہ جاتے ہیں تو ایک روزہ کم پڑجاتاہے)۲۔ قرآنی نقطہ نظر سے مکہ وسط ارض ہے ۔ جسکے نتیجے میں مکہ کا وقت معیاری وقت ہونا چاہئے ۔ اس لحاظ سے سعودیہ ہم سے دو گھنٹے پیچھے نہیں بلکہ ہم سعودیہ سے بائیس گھنٹے پیچھے ہیں ۔ اور ہمارے ہاں تاریخ سعودیہ سے ۲۲ گھنٹے بعد بدلنی چاہیئے ۔ جسکے نتیجے میں ہمارے ہاں ہجری مہینوں کا چاند بھی ۲۲ گھنٹے بعد نظر آنا چاہئے جیساکہ ہوتاہے۔تو یہ کوئی جھگڑے کا باعث نہیں بلکہ بالکل وہ حقیقت ہے جو مغرب نے ڈیٹ لائن طے کرکے ہم سے چھپائی ہے۔اس حساب سے سب سے پہلے سعودی عرب ، یمن ، عراق وغیرہ میں چاندکی تاریخ بدلے گی ، پھر مصر اور پھر لیبیا الجزائر وغیرہ کے بعد براعظم امریکہ (جنوبی ، شمالی) پھر آسٹریلیااور پھر ہوتے ہوتے بنگلہ دیش اور انڈیا کے بعد ہماری چاند کی تاریخ بدلےگی۔ تو جس طرح نیوزی لینڈ سے بیس گھنٹے بعد امریکہ میں کرسمس منانے سے دو کرسمسیں نہیں ہوتیں تو ہمارے بھی دو عیدوں والا جھگڑا ہی نا بنے اور پوپلزئی وغیرہ کی ٹینشن بھی ختم ہوجائےہمارے ہاں پیدا ہونے والے جھگڑوں کا باعث اور بنیاد ہماری اندھا دھند مغرب کی تقلید ہے ۔ اگر سب مسلم ممالک مل کر مسلمانوں کے لئے معیاری وقت مکہ کو مان لیں ، تو چاند کے علاوہ اور بہت سے اسلامی اوقات میں پید ا ہونے والے مسئلے بھی آسانی سے حل ہوسکتے ہیں۔میں اپنی رائے کو پورے وثوق کے ساتھ کئی جگہ شیئر کرتا رہتاہوں ۔ اگر میری رائے میں کوئی فنی یا تکنیکی غلطی ہے تو اہل علم حضرات ضرور میری تصحیح فرمائیں ۔ تا کہ میں اپنی اصلاح کرلوں۔ اوراگر میری رائے آپ کو بھی صائب محسوس ہو تو اسے دوسرے دوستوں کے ساتھ بھی شئیر کریں ۔xx
No comments:
Post a Comment