Saturday, September 7, 2024

مشرق اور مغرب ک تعیین قرآن وسنت کی روشن می ا یک تفتیشی جائزہ

Abstract:

The concept of East and West has existed since ancient times. The side from which the sun came up/ rises was called the east, and the side from which it goes down/sets was called the west. In the course of British rule, due to the availability of fast travel resources, as well as British conquests from the American continent to the Asian continent, as well as the problems of world trade. There was a need for a universal beginning and end date. Because the world is round, and the sun rises and sets every hour of the day in certain areas. For this reason, it was considered necessary to establish a date line from which the day and date should be considered to begin. In the Pacific Ocean, the date line between America and Asia is accepted.

Although there is no geographical definition of East and West in the Qur'an and Sunnah, but if we examine the words used for East and West in the Qur'an, the wording of the Dual used in it for East and West with the story of Dhul-Qarnain together, we understand that the date line between Africa and America should be considered. In this case, the word Eastern in the Holy Qur'an refers to North and South America, whereas the word Western refers to Europe and African continent.In addition, the word “Mashriqain” and “Maghrabain” may also indicates that there should be two date lines, separately for the sun and the moon, respectively. Therefore, if the date line of the moon is set at a distance of 180 degrees from the date line assumed after Europe and Africa, then the problem of the date of moon can also be solved.

Key words: Dateline, East, West, Quran, Geography, Atlantic Ocean, America, Two Oceans meeting, Moon dateline,

مشرق اور مغرب کی تعیین قرآن وسنت کی روشنی میں ایک تفتیشی جائزہ

AN INVESTIGATIVE STUDY OF THE DISTORTION OF THE GEOGRAPHY OF THE HEBREW BIBLE TO CONCEAL THE PRESENCE OF ABRAHAM AND HIS DESCENDANTS IN THE ARABIAN PENINSULA

 Abstract

The Jewish people claim that the land promised to Ibrahim's descendants was only for the children of Israel and that Hazrat Ibrahim and his descendants never came to the Arabian Peninsula. This claim is based on bragging, selfishness, and lies. The main characters of distortion are Levites and Jeroboam. The reasons for blaming them have been mentioned in this article in detail. Their claims neither logically nor historically meet the truth. The Torah admits that Hazrat Ismail was circumcised, and the Arabs used to circumcise, which was not practiced in any other nation except Arabs and Jews. Arabs also introduced themselves as descendants of Hazrat Ismail, and historically, they occupied Makkah and Zamzam as heirs. The Qur'an, on the other hand, does not mention the names of many regions or figures in many stories, possibly to prevent Ahle Kitab from spreading propaganda against the accuracy of the Holy Qur'an. The distortion in maps, names of cities, and races had allowed them to hide the reality. I have managed to solve the riddle of geographical changes by using archeological information of those areas. Reality shows that not only Ibrahim, Ismael, Isaac, and their early descendants but also Bani Israel themselves spent most period in Arabia.


Keywords: 

Torah, Distortion, Levites, Jeroboam, Hazrat Ibrahim, Hijaz, Hazrat Ismail.

linkجغرافیہ میں تحریف

Thursday, May 10, 2018

تبلیغی جماعت میں چار ماہ یا اس سے زیادہ عرصے کے لئے جانے کا کیا حکم ہے۔ نیز اس عرصہ میں بیوی کی ضرورت کا کیا ہوگا، کیا وہ غلط طریقے اختیار نہیں کرلے گی۔

تبلیغی جماعت پر کیا جانے والا ایک سوال اور اس کا جواب
سوال :تبلیغی جماعت میں چار ماہ یا اس سے زیادہ عرصے کے لئے جانے کا کیا حکم ہے۔ نیز اس عرصہ میں بیوی  کی ضرورت کا کیا ہوگا، کیا وہ غلط طریقے اختیار نہیں کرلے گی۔
جواب:دین کی اشاعت کے لئے گھر سے باہر جہاد یا تبلیغ کے لئے جانے کا ثبوت آپ ﷺ کے زمانے سے لیکر آج تک مسلسل موجود ہے۔ پہلے زمانے کی جنگیں ہمارے دور کی طرح مختصر عرصے کی نہ ہوتی تھیں بلکہ طویل عرصہ تک محاصرہ کی ضرورت پیش آتی تھی جس میں بعض دفعہ دو سے پانچ اوردس سال تک کا عرصہ بھی پیش آتا رہاہے۔چارماہ کے متعلق جو حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی جو بات مشہور ہے کہ آپ نے فوج میں چار ماہ بعد چھٹی کا حکم منظور فرمایا وہ  اس سپاہ کے لئے تھا جو صرف مورچوں پر موجود ہے اور باقاعدہ لڑائی میں حصہ نہیں لے رہی ، ورنہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دور میں بہت  سی لڑائیاں ایسی ہوئیں جن میں ں سال بھر مرکز سے کمک بھی نہ بھیجی جاسکی چہ جائیکہ گئے ہوئے مجاہدوں کو چھٹی مل سکتی ۔ اس کے علاوہ صوفیاء کے اپنی بیویوں کو چھوڑ کر سالہاسال کی نفس کشی کرنے کے واقعات بے شمار ہیں۔
رہی بات عورتوں کے حقوق ادا کرنے کے متعلق نیز عورت کی ضرورت کا خیال رکھنے کے متعلق تو حقیقت یہ کہ ہمارا آج کا معاشرہ عورت کو جس قدر شہوت زدہ ثابت کرنے پر تلا ہوا ہے حقیقت اس کے خلاف ہے۔ اوپر مذکورہ بات کے لحاظ سے الزام کا دائرہ بہت بڑا ہوجاتا ہے۔ آپ تمام بیوہ عورتوں کے کردار پر تہمت لگا رہے ہیں۔ آپ ان تمام عورتوں جن کے شوہر کمانے کے لئے بیرون ِ ملک گئے ہیں پرالزام دھر رہے ہیں۔ ایسے تمام جوڑے جو رنجشوں کی وجہ سےالگ ہیں ، بیویاں میکے میں چھ چھ ماہ ، سال سال سے گئی ہوئی ہیں ان تمام کے کردار پر شک کررہے ہیں۔
حقیقت میں اس معاملے میں جتنا مرد کو عورت کی ضرورت ہوتی ہے اتنی عورت کو مرد کی ضرورت نہیں ہوتی۔  اسی لئے مرد کو چار بیویوں کی اجازت ہے ، جب کہ عورت کو نہیں ہے۔ یہ حقیقت میرے تمام شادی شدہ دوست ،خاص طور پر دین سے تعلق رکھنے والے دوست(یہ قید اس لئے کہ ان کے لئے سب کچھ اپنی بیوی ہی ہوتی ہے)مانیں گے کہ شوہر بیچارہ حق ادا کرنے کے لئے بیوی کے پیچھے پیچھے پھر رہا ہوتا ہے ، اور وہ آج نہیں کل پر ٹالتی رہتی ہے۔
ویسے بھی تبلیغی جماعت میں نئے شادی شدہ کو دو سال تک جماعت میں جانے پر پابندی ہوتی ہے تاکہ وہ نئی بیوی کو پوری طرح خوش کرلے۔ اور اس کے بعد بھی وہ بیوی کی اجازت اور مرضی کے مطابق جماعت میں جاتے ہیں۔
اگر بالفرض اوپرسوال میں  ذکر کی گئی بات میں کو ئی حقیقت ہوتی تو اللہ تعالی ٰ امہات المومنین کو حضور ﷺ کے بعد اتنی لمبی زندگی عطا نہ فرماتے اور صحابہ کرام اتنی لمبی جنگیں نہ لڑسکتے اور نہ ہی  اتنا علاقہ فتح ہوسکتا۔
واللہ اعلم بالصواب
نوراکرم

Sunday, May 28, 2017

قمری تقویم


ایک عید یا دو عید

آج کے دور کی مسلم دنیا کے لئے رؤیت ِ ہلال ایک دردِ سر بن چکا ہے  جس کی وجہ سے پوری دنیا میں مسلمانوں کی جگ ہنسائی ہورہی ہے ۔ ہمارے ہاں ہرسال دو چاندوں کا جھگڑا چلتارہتاہے۔  اور خاص طور پر یورپ میں چھٹی کے  معاملے میں مسلمانوں کی از حد تضحیک ہوتی، کہ پہلے دن والی عید کی چھٹی چاہئے یا دوسرے دن کی عید کی چھٹی چاہئے ۔میں کو ئی  بہت زیادہ فلکیات دانی کا مدعی نہیں ہوں مگر کامن سینس کے لحاظ  سے اس مسئلہ کے لطیفہ بننے پر بہت زیادہ حیران ہوں۔   میرے خیال میں اگر ہم چند باتوں پر غور کریں اور نتیجہ طے کرلیں تو مسئلہ بہت ہی سہولت سے حل ہوجائے۔۱۔ شمسی تقویم کے لئے پوری دنیا میں گرین وچ کا ٹائم معیار ہے گرین وچ میں رات کے بارہ بجنے سے تاریخ تبدیل ہوجاتی ہے  اسکے بعد اس کے مغرب کے علاقوں میں ایک ایک گھنٹہ کے فاصلے سے تاریخ بدلنا شروع ہوجاتی ہے۔ یہ بات سب کو معلوم ہے کہ دنیا گول یا بیضوی ہے اور جس جس علاقے کے سامنے سورج  حساب کے مطابق آتاجاتاہے وہاں ٹائم بدلتاجاتاہے ۔ ہمارے قریبی علاقوں میں پہلے بنگلہ دیش میں بارہ بجتے ہیں تاریخ تبدیل ہوتی ہے پھر آدھا گھنٹے بعد انڈیا میں بارہ بجتے ہیں اور تاریخ بدلتی ہے۔ اور پھر آدھاگھنٹے بعد ہمارے ہا ں تاریخ بدلتی ہے سعودیہ میں ہم سے دو گھنٹے بعد تاریخ بدلتی ہے  اس طرح سلسلہ چلتا جاتا ہے حتی کہ گرین وچ کے بالکل مشرق میں صرف ایک گھنٹے کے فاصلے میں کیپ ورڈ آئی لینڈ ہے جہاں گرین وچ سے تئیس گھنٹے بعد تاریخ بدلتی ہے۔حتی کہ ان دونوں کے درمیان ایک ایسی لکیر بھی بن جاتی ہے جس سے اگر آپ گرین وچ کے علاقے سے کیپ ورڈ آئی لینڈ کی طرف  اس لکیر کو پار کرلے تو وہ ایک تاریخ پیچھے چلا جاتاہے ۔ زیادہ واضح الفاظ میں اگر ایک شخص گرین وچ میں ۲۵ دسمبر کو کرسمس منا کر بائیس گھنٹے بعد وہ کیپ ورڈ کی طرف اس لکیر کو پار کرلے تو دوبارہ تئیس گھنٹے بعد دوبارہ کرسمس منا سکتاہے۔ او ر اس کے برعکس  کوئی شخص گرین وچ  میں کرسمس کے بائیس گھنٹے بعد کیپ وڈ آئی لینڈ سے گرین وچ چلا جائے تو وہ کسی جگہ کی کرسمس میں شرکت نہیں کرسکتا۔( یہ وہی مسئلہ جیسے ہمارے بعض حضرات جو سعودیہ سے آتے ہیں تو انہیں ایک روزہ زیادہ رکھنا پڑتاہے یا یہاں سے سعودیہ جاتے ہیں تو ایک روزہ کم پڑجاتاہے)۲۔ قرآنی نقطہ نظر سے مکہ وسط ارض ہے ۔ جسکے نتیجے میں مکہ کا وقت معیاری وقت ہونا چاہئے ۔ اس لحاظ سے سعودیہ ہم سے دو گھنٹے پیچھے نہیں بلکہ ہم سعودیہ سے بائیس گھنٹے پیچھے ہیں ۔ اور ہمارے ہاں تاریخ سعودیہ سے ۲۲ گھنٹے بعد بدلنی چاہیئے ۔ جسکے نتیجے میں ہمارے ہاں ہجری مہینوں کا چاند بھی ۲۲ گھنٹے بعد نظر آنا چاہئے جیساکہ ہوتاہے۔تو یہ کوئی جھگڑے کا باعث نہیں بلکہ بالکل طبعی سی بات ہے۔

اس حساب سے سب سے پہلے سعودی عرب ، یمن ، عراق وغیرہ میں چاندکی تاریخ بدلے گی ، پھر  مصر اور پھر لیبیا الجزائر وغیرہ کے بعد براعظم امریکہ (جنوبی ، شمالی) پھر آسٹریلیااور پھر ہوتے ہوتے بنگلہ دیش اور انڈیا کے بعد ہماری چاند کی تاریخ بدلےگی۔ تو جس طرح برطانیہ سے بیس گھنٹے بعد امریکہ میں کرسمس منانے سے دو کرسمسیں نہیں ہوتیں تو ہمارے بھی دو عیدوں والا جھگڑا ہی نا بنے اور پوپلزئی وغیرہ کی ٹینشن بھی ختم ہوجائےہمارے ہاں پیدا ہونے والے جھگڑوں کا باعث اور بنیاد ہماری اندھا دھند مغرب کی تقلید ہے ۔ اگر سب مسلم ممالک مل کر مسلمانوں کے لئے معیاری وقت مکہ کو مان لیں ، تو چاند کے علاوہ  اور بہت سے اسلامی اوقات میں پید ا ہونے والے مسئلے بھی آسانی سے حل ہوسکتے ہیں۔میں اپنی رائے کو پورے وثوق کے ساتھ کئی جگہ شیئر کرتا رہتاہوں ۔ اگر میری رائے میں کوئی فنی یا تکنیکی غلطی ہے تو اہل علم حضرات ضرور میری تصحیح فرمائیں ۔ تا کہ میں اپنی اصلاح کرلوں۔ اوراگر میری رائے آپ کو بھی صائب محسوس  ہو تو اسے  دوسرے دوستوں کے ساتھ بھی شئیر کریں  ۔xx

Saturday, January 31, 2015

قرآن پاک کے شہید اوراق کو حفاظت کی نیت سے جلانے کا حکم



ہمارے جھڈو شہر کے  بعض قرآن وحدیث  اور اسلامی فقہ اور تاریخ سے نابلدلوگوں نے  ایک بات کا بتنگڑ بنا کر جھڈو شہر میں ہنگامہ کھڑا کیا ہوا ، میری تما م سمجھدار اور تعلیم یافتہ طبقہ سے درخواست ہے کہ کسی بات کو الجھانے سے پہلے اس کی صحیح حقیقت سمجھنی چاہئے،
قرآن ِ پاک کے شہید شدہ اوراق کی حفاظت کا حکم

قرآن پاک کے شہید شدہ اوراق کی حفاظت کی تین صورتیں امت مسلمہ میں رائج ہیں۔
جلادینا،بہادینا، دفنا دینا،
مقصود تینوں صورتوں کا صرف یہ ہے کہ قرآنی اوراق بے ادبی سے بچ جائیں، اور کسی غلط جگہ پر اڑ کر نہ چلے جائیں یا نادانستہ طور پر کسی کے قدموں کے نیچے نہ چلے جائیں۔
امام شافعی ؒ اور امام مالک ؒ کے نزدیک افضل جلادینا،
 اس کی وجہ حضرت عثٖمان رضی اللہ عنہ کا وہ عمل ہے جو کہ بخاری شریف  میں اور دیگر کتب حدیث میں جمع قرآن کے بیان میں مذکور ہے کہ آپ نے جمع قرآن کے بعد وہ تمام جھلیاں ہڈیاں اور دیگر اشیاء جن پر قرآن ِ پاک  کی آیات صحابہ کرام نے لکھیں تھیں کو جلانے کا حکم دیا، اور اس فیصلہ پر کسی صحابی نے کسی تحفظات کا اظہار نہیں کیا۔
دوسرا وجہ وہ یہ بتاتے ہیں کہ دفنانے کی صورت میں بعض دفعہ وہ اوراق بارش یا دیگر اسباب سے ظاہر ہوجاتی ہے جسکے نتیجہ میں ان کی توہین اور بے ادبی کا اندیشہ ہے۔
حنفیہ کے نزدیک افضل دفن کرنا ہے، اور احناف کے نزدیک ان کا دفن کرنا انسان کو دفن کرنے کی طرح ہے یعنی لحد کھود کردفن کیا جائے یا اوپر تختہ رکھ کرپھر مٹی ڈالی جائے، تاکہ سیدھا قرآن پر مٹی ڈالنا لازم نہ آئے، البتہ بہانا اور جلانا بھی جائز ہے۔
کیا شہید شدہ اوراق کو حفاظت کی نیت سے جلانے والا قابل ِ تعزیر ہے؟
حنفیہ سمیت کسی کے بھی نزدیک شہید شدہ اوراق کو حفاظت کی نیت سے جلانے والا قابل تعزیر یا سزا کا مستحق نہیں ہے۔

علمائے کرام کے فتاوی جات کے لنکس ذیل میں درج ہیں۔

https://www.paldf.net/forum/showthread.php?t=173891

http://maquboolahmad.blogspot.com/2014/10/blog-post_90.html
http://www.factway.net/vb/t18036.html
http://www.thefatwa.com/urdu/questionID/1357/
http://www.urdumajlis.net/index.php?threads/%D9%82%D8%B1%D8%A2%D9%86%DB%8C-%D8%A2%DB%8C%D8%A7%D8%AA-%DA%A9%DB%92-%D8%A8%D9%88%D8%B3%DB%8C%D8%AF%DB%81-%D8%A7%D9%88%D8%B1%D8%A7%D9%82-%DB%94%DB%94%DB%94%D8%9F.5971/

Wednesday, December 24, 2014

آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تاریخ پیدائش 9ربیع الاول ہے یا 12ربیع الاول

آپ ﷺ کی تاریخ میلاد "نو۹" ربیع الاول ہے یا۱۲ بارہ ربیع الاول

آپ ﷺ کی تاریخ پیدائش کے بارے میں بے شمار اقوال سیرت کی کتابوں میں مذکور ہیں جن میں ربیع الاول کی دو تاریخ سے لیکر سترہ اور چوبیس ربیع الاول تک کے اقوال شامل ہے۔
سب سے زیادہ معروف اقوال آٹھ ربیع الاول، نو ربیع الاول اوربارہ ربیع الاول ہیں ۔
البتہ سہیلی نے بیس اپریل نقل کی ہے۔
ان میں سے کوئی بات نص صریح سے ثابت نہیں ۔
نص صریح سے جو بات طے  شدہ ہے وہ ہے آپ کی پیدائش کا پیر کے دن ہونا ہے جیسا کہ مسلم شریف کی روایت میں اور دیگر روایات میں آپ ﷺ سے ثابت ہے۔
سیرت النبی  علامہ شبلی نعمانی میں محمود فلکی ایک قدیم ماہر ریاضی اور فلکیات کی نسبت سے نو تاریخ کو ترجیح دی گئی ہے کہ ان کہ حساب کے مطابق پیر کا دن نو ربیع الاول کو بنتاہے۔ لہذا آپ کی تاریخ پیدائش نو ربیع الاول طے ہے۔ یہ حساب مجھے سمجھ نہیں آتا تھا، مگرآج کے سائنسی دور میں یہ کا م آسان ہوگیاہے۔
ایک سائیٹ کا لنک شئیر کررہا ہوں ، اس میں آپ عیسوی کلینڈر کو ہجری اور ہجری کو عیسوی میں کنورٹ کرسکتے ہیں۔
۲۰بیس اپریل ۵۷۱ء کواسلامی کلینڈر میں کنورٹ کرلیں ، نتیجہ نو۹ ربیع الاول ۵۳بی ایچ آئے گا۔

آپ ﷺ کی تاریخ وفات بارہ ربیع الاول کو ہونا طے شدہ ہے، جبکہ پیدائش کی تاریخ میں اختلاف ہے، اب بارہ تاریخ کو خوشیا ں منانے والوں کے لئے بڑا لمحہ فکریہ ہے کہ وہ کس چیز کی خوشی منا رہے ہیں۔

Tuesday, December 16, 2014

کیا بچوں کو قتل کرنے والا مسلمان مجاھد ہو سکتاہے؟

بسم اللہ الرحمن الرحیم
کیا بچوں کو قتل کرنے والا مسلمان مجاھد ہو سکتاہے؟
INJURED STUDENT. A school boy who was injured in a Taliban attack receives medical treatment at a hospital in Peshawar, Pakistan, 16 December 2014. Photo by Arshad Arbab/EPA
آپ ﷺ نے اپنی حیاۃ طیبہ میں جن کو سب سے سخت ترین سزا دی وہ بنی قریظہ کے یہودی تھے جو اس سزا کے لائق بھی تھے۔ مگر آپ ﷺ نے ان کے بھی بچوں اور عورتوں کی جان بخشی کی۔
بچہ تو دوست کا ہویا دشمن کا ، مسلمان ، ہندو، سکھ ، یہودی ، عیسائی، بدھ کسی رنگ کسی نسل کا ہو وہ تو بے عیب پھول ہے، بچوں کا خون بہانے والا انتہائی بزدل ترین درندہ ہے۔ اسے تو اپنے آپ کو انسان کہتے ہوئے شرم محسوس کرنی چاہئے چہ جائیکہ وہ اپنے آپ کو مسلمان گردانے۔
کوئی اسلامی قوانین سے ادنی واقفیت رکھنے والا بھی  اس  حرکت کے کرنے والے کو مسلمان مجاھد نہیں سمجھ سکتا۔ آج ان لوگوں کی حمایت کرنے والوں کو سوچ لینا چاہئے کہ وہ کس دھوکے میں پڑے ہیں،ان خوارج کی طرفداری قطعا جائز نہیں ہوسکتی۔  یہ کہاں کے طالبان ہیں ، جن کواسلامی روایات تک کا علم نہیں۔
یقیناً آج فتنہ کا دور ہے اور اس دور کے فاسق ترین حاکم کے خلاف بھی  اسلحہ اٹھانے سے آپ ﷺ منع فرماکرگئے ہیں۔ اللہ تعالی ہماری تمام ظاہری اور باطنی فتنوں  سے حفاظت فرمائیں۔ آمین