Wednesday, July 23, 2025

متحدہ مجلس عمل اور شیعوں کی شمولیت

انسانوں کی اگر اعتقادیات کے لحاظ سے تقسیم کا مطالعہ کریں تو سب سے پہلے لوگ دو حصوں میں تقسیم ہوتے ہیں سیکولر اور مذہبی 

پھر مذہبی دو حصوں میں تقسیم ہوتے ہیں مشرک اور موحد 

پھر موحد دو حصوں میں تقسیم ہوتے ہیں خانہ کعبہ کو قبلہ اور نبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم کو آخری نبی ماننے والے یا اس کے بر خلاف مرکز اور محور ماننے والے 

پھر اھل قبلہ کی دو قسمیں ہیں اہلسنت والجماعت اور غیر اہلسنت 

پھر اہلسنت کی دو قسمیں ہیں مقلد اور غیر مقلد 

پھر مقلدین میں حنفی اور غیر حنفی 

پھر حنفیوں میں پاکستان میں دو قسمیں ہیں دیوبندی اور بریلوی 

پھر دیوبندیوں میں دو سیاسی پارٹیاں ہیں جمعیت اور سپاہ ۔ ہر قسم اپنے مقسم میں متحد ہے۔ لہذا اتحاد کی فطری صورت یہ ہے کہ بریلوی کے مقابلے میں جمعیت اور سپاہ ایک ساتھ ہوں۔ غیر حنفی کے مقابلے میں بریلوی دیوبندی ایک ہوں۔ غیر مقلد کے مقابلے میں تمام مقلدین ایک ساتھ ہوں۔ غیر اہلسنت کے مقابلے میں اہلسنت ایک ساتھ ہوں۔ غیر قبلہ کے مقابلے میں اہل قبلہ ایک ساتھ ہوں مشرک کے مقابلے میں موحد ایک ہوں اور سیکولر کے مقابلے میں اہل مذہب ایک ہوں۔

ہماری پاکستان کی جمہوری سیاست میں بنیادی مقصد 73 آئین کی اسلامی شقوں کا نفاذ ہے۔ اور ملک سے انگریزی دور کے قوانین کو ختم کرکے اسلامی معاشرے کی بنیاد ڈالنا ہے۔ جس پر تمام اہل قبلہ (خانہ کعبہ ظاہری اور حضور صلی اللّٰہ علیہ وسلم باطنی) کا جمع ہونا عین قرین قیاس ہے۔ ایسے میں کسی ذیلی پارٹی کا اپنے فطری پارٹنر کے برعکس غیر فطری پارٹنرز سیکولر اور غیر اھل قبلہ کا کام آسان کرنا یا ان کو سپورٹ کرنا نا قابل فہم ہے۔ اور اتحاد کا ظاہری مطلب ہی یہی ہوتا ہے کہ اختلافیات پر سکوت کیا جائے گا۔ اگر اختلافیات پر سکوت کرکے آگے بڑھنا نہ ممکن ہوتا تو میاں بیوی کبھی بچہ پیدا نہ کر پاتے۔ 

اصل مسئلہ درست دشمن کی تعیین ہے۔ اور پھر اپنے اتحادیوں کا چناؤ ہے۔ پاکستان میں ہمارا بڑا دشمن ملحد سیکولر اور غیر مسلم ہیں یا شیعہ۔ شیعہ کو ساتھ ملا کر اور سیکولر ملحد کو بنیادی دشمن مان کرہم ملک میں دینی فضا بنا سکتے ہیں اور اسلامی قانون کے نفاذ کی جدو جہد میں آگے جاسکتے ہیں۔ جب کہ شیعہ کے ساتھ الجھنے کا سیدھا سا مطلب سیکولر لابی کے لئے راستہ خالی چھوڑنا ہے۔ نفاذ اسلامی کے بنیادی مقصد سے بھی محروم ہوں گے۔شیعوں کا بھی کچھ کر نہیں سکیں گے۔

 فافھم 

Monday, June 30, 2025

Abraham Accords and Interfaith Harmony /Unity/Dialogue

حضرت ابراہیم علیہ السلام کا سفرہجرت مکہ کا تھا نا کہ فلسطین کا 

اتحاد بین المذاہب اور ابراہیمی معاہدے میں فرق ہے۔

سب سے پہلے تو یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ابراہیمی معاہدہ ایک الگ معاملہ ہے جبکہ اتحاد بین المذاہب یا انٹر فیتھ ہارمونی ایک الگ چیز ہے۔

اتحاد بین المذاہب کا مفہوم اور تبصرہ

  بنیادی طور پر  اتحاد بین المذاہب کی تحریک کا مقصد  یہ نہیں ہے کہ تمام مذاہب کو ملا کرایک مذہب بنایا جائے  بلکہ  اس کا مقصد تمام مذاہب میں  باہمی گفت وشنید کے راستے کھولنا اور ہر مذہب میں موجود دوسری کمیونیٹیز کے ساتھ رہنے کے اصولوں کو استعمال کرتے ہوئے عالمی امن کو قائم کرنے کی کوشش کرنا ہے۔  ابتدائی طور پر ہمارے ہاں بعض لوگوں نے صرف اس تحریک کا نام سن کر ہی تمام مذاہب کو ایک بنانے کی کوشش شروع کردی تھی تو وہ ایک ناممکن صورتحال ہے۔ کوئی بھی مذہب دوسرے مذہب  میں ملنے کوتیار نہیں ہے  اور نہ ہی ہوسکتا ہے۔  رہی بات دیگر کمیونیٹیز کو امن وسکون سے رہنے دینا تو اس کے لئے تمام مذاہب کی باتوں کو ایک طرف  رکھ کر آپ  ہر ایک کے دور ِ عروج میں  دیگر اقوام اور مذاہب سے  اختیار  کئے گئے رویوں کا جائزہ لیں تو سب سے زیادہ  گنجائش ، آزادی اور رواداری دیگر مذاہب  کی بنسبت مسلمانوں نے  پیش کی اور آج بھی ایسا ہے۔  پچھلے پچھتر سال  سے یہودیوں کی طرف سے فلسطینی مسلمانوں کے بدترین   قتل ِ عام کے باوجود  آج بھی یہودی تسلیم کرتے ہیں کہ مسلم ممالک آج بھی یہودی افراد سے متعصب نہیں ہیں۔

ابراہیمی معاہدے کا مفہوم اور تبصرہ

 ابراہیمی معاہدہ ، اتحاد بین المذاہب کی تحریک کے برخلاف  مذہبی بنیادوں پر نہیں بلکہ سیاسی ، سفارتی اور جغرافیائی بنیادوں پر قائم کیا جارہا ہے۔ اس کا مقصد مسلم ریاستوں سے اسرائیل کو قانونی طور پر تسلیم کروانا ہے ۔ جس پر کچھ ممالک متحدہ عرب امارات ، بحرین ، سوڈان اور مراکش دستخط کرچکے ہیں۔   بظاہر ابراہیمی مذاہب سے ذہن میں یہ تصور پیدا ہوتا ہے کہ شاید یہ بھی اتحاد بین المذاہب سے ملتا جلتا اور مذہبی اصولوں کی یکجائی کی بات ہے۔ جبکہ حقیقت میں ایسا نہیں ہے۔ اگرچہ اس میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کی  مسلمہ شخصیت کا حوالہ دیا جارہا ہے ۔ مگر یہ حوالہ درحقیقت  حضرت ابراہیم کی ہجرت کے سفر کی یہودی تعبیر کوتسلیم کرنے کی بنیاد پر قائم ہے۔  یہودیوں کا ماننا ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام حاران سے ہجرت کرکے موجودہ اسرائیل میں تشریف لائے۔اور یہی ان کی اولاد کا مسکن اور موعودہ سرزمین تھی۔ جبکہ یہ بات سراسر بے بنیاد اور  فلسطینیوں کی سرزمین ہتھیانے  کے لئے ان کا قدیم فریب ہے۔  بنیادی طور پر حضرت ابراہیم کا فلسطین تشریف لانے کا قرآن وسنت میں کوئی ثبوت موجود نہیں  ہے۔ ہمارے مفسرین حضرات اور دیگر نے جو اس طرح کے واقعات نقل کئے ہیں وہ خالصتا اہل کتاب کا بیان کردہ پس منظر ہے۔   قرآن ِ کریم میں حضرت ابراہیم کے ہجر ت کے بعد مکہ تشریف لانے کا ذکر ملتا ہے۔ اور فلسطین جانے کا کسی طرح کاثبوت نہ قرآن میں  ملتا ہے اور نہ سنت میں۔ جبکہ فلسطین کی جو کہانی ہم اہل ِ کتاب سے نقل کررہے ہیں اس میں حضرت ابراہیم کبھی بھی عرب تشریف نہیں لائے نہ ہی ان کے صاحبزادے حضرت اسماعیل عرب میں آئے اور نہ ہی عرب حضرت اسماعیل کی اولاد ہیں۔ اور عقلی طور پر بھی فلسطین میں رہتے ہوئے  مکہ میں تشریف لانا اور خاص کربار بار تشریف لانا ایک ناممکن سی بات ہے۔  حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہمیں اہل ِ کتاب کی تصدیق کرنے سے منع کیا ہے اور ہمیں حکم یہ ملا ہے کہ جو چیز کتاب وسنت کے موافق ہواسے لیں اور جو کتاب وسنت کے خلاف ہو اس کا انکار  کریں۔  ہم نے اپنی روایات کو ان کی تحریف شدہ کتابوں سے نہیں سمجھنا بلکہ ان کی روایات  کو جوتحریف شدہ ہیں اپنے قرآن اور سنت کی چھلنی سے سمجھنا ہے۔

تورات کے موافق ارض موعودہ  حجاز  ہے

ابراہیمی معاہدے کو تسلیم کرنے کا مطلب تاریخی پس منظر کو پوری طرح موجودہ یہودی بیانیے کے مطابق تسلیم کرلینا ہے۔ اور فلسطینیوں کی حمایت سے سراسر پہلو تہی کرلیناہے۔ جبکہ حقیقی طور پر قرآن اور سنت تو حضرت ابراہیم کے مکہ میں آنے کا  ذکر کرتے ہیں ہیں۔ کتاب ِ مقدس  اپنے اندرونی اور بیرونی شواہد کے ساتھ واضح انداز میں یہ بات بڑی تفصیل  سے  بیان کرتی  ہے۔ان کی موعودہ سرزمین  جہاں حضرت ابراہیم اور ان کی اولاد مقیم تھی  وہ حجاز کا علاقہ اور امن کا شہر  مکہ یعنی یروشلم تھا۔(آپ ﷺ نے بیت المقدس کے شہر کو ہمیشہ ایلیا سے متعارف کروایا اور کبھی اسے یروشلم ارشاد نہیں فرمایا اور تاریخی حقیقت کے طور پر بھی یہ معلوم شدہ ہے کہ اس شہر نے  یہود کے اس شہر میں ہوتے ہوئے لمبے عرصے سلامتی دیکھی ہی نہیں۔)

تناخ کی ذکر کردہ حقیقی کہانی کا خلاصہ 

  ان کے آباء واجداد نے مصرسے آنے کے بعد اسے وادئ غیر ذی زرع ہونے کی وجہ سے ٹھکرادیااور کہاکہ اس علاقے میں رہنے سے تو کہیں بہتر تھا کہ انہیں مصر میں غلامی میں موت آجاتی تاکہ کچھ کھا پی کر تو مرتے۔ تو انہیں مدینہ جانے کا کہاگیا جو کہ سرسبز علاقہ تھا  مگر وہاں قوم  شعیب کے طاقتور لوگوں عاد ثانیہ کا قبضہ ہونے کی  وجہ سے انہوں نے لڑنے سے انکار کردیا ، جس کے نتیجے میں چالیس سال تک عرب کے صحرا  میں خوار ہوتے رہے ۔ حضرت یشوع کے دور میں جب فتوحات ہوئیں تو سعودی عرب سے لے کر شام  اور ایران تک کا علاقہ انہوں نے فتح کیا۔ حضرت سلیمان علیہ السلام کے دور میں  بیت المقدس بننے کے بعد  یہودی ربیوں نے اپنی  نسل سے حکومت نکل جانے کی وجہ سے حضرت داؤد کی اولاد سے بغاوت کی۔ رحبعام  جو کہ حضرت سلیمان علیہ السلام اور ملکہ سبا  کا بیٹا تھا اپنی جان بچاکر واپس حجاز آگیا اور اس کے ساتھ صرف ڈیڑھ قبیلہ تھا باقی کے ساڑھے دس قبیلوں نے جہاں اولاد داؤد کو چھوڑا وہیں حضرت داؤد اور اپنے آباء و اجداد کے قبلے کا انکار کرکے  فلسطین میں موجود  بیت المقدس  کو قبلہ قرار دیا یہ تاریخ میں پہلی دفعہ دو قبلوں کی لڑائی  بنی ۔ جو کہ تقریبا تین سے زیادہ صدیاں جاری رہی ۔ پہلے فلسطین پر دوسری اقوام نے قبضہ کیا  اور پھر حجاز کے لوگ بھی بدعملی میں مبتلاہوئے تو ان پر بھی بخت نصر مسلط ہوگیا۔جس کی پیش گوئی پہلے ہی مختلف انبیاء نے کی تھی۔پھر خورس بادشاہ کے ہاتھوں ان کو رہائی ملی  جو کہ پہلے سے موعودہ تھی اور خورس نے ہی دوبارہ خانہ کعبہ کو تعمیر کیا اور انہوں نے دوبارہ دوسرا قبلہ تعمیر کرنے سے توبہ کرلی مگر  ایک سے ڈیڑھ صدی میں دوبارہ نحمیاہ  نے دوبارہ ٹیمپل کی تعمیر کی کوشش شروع کردی اورتناخ میں  پہلی دفعہ کی کی گئی تحریف کو زیادہ   بہتر کیا اور باقاعدہ یہودی لٹریچر تالمود وغیرہ کو مدون کروانے کا سلسلہ شروع کیا۔ان کی کتاب کے مطابق عرب نحمیاہ کو اس حرکت سے روکتے رہے جس کی وجہ سے نحمیاہ دوبارہ  اس کی تعمیر نہ کرسکا۔ بالآخر حضرت عیسی ٰ کے دور میں رومی سرپرستی میں انہوں نے دوبارہ  ایلیاء میں جسے یہ یروشلم قرار دینے لگ گئے تھے  دوبارہ ٹیمپل بناپائے مگر حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے ان کو اس سے منع فرمایا  اور پیشن گوئی فرمائی کہ یہاں ایک بھی اینٹ دوسری پر برقرار نہیں رہے گی اور اسے تباہ کیا جائے گا۔ اسے یہودیوں نے توہین ِ ناموس قرار دیا اور اسی بنیاد پر حضرت عیسیٰ کی سولی کا فیصلہ دیا گیا۔  لیکن خدا کا کرنا ایسا ہواکہ  رومیوں کی مدد سے بنایا گیا ٹیمپل  حضرت عیسیٰ  کے آسمانوں پر زندہ اٹھائے جانے کے کچھ ہی عرصہ بعد خود رومیوں نے ہی تباہ کردیا۔ اور حضرت عیسیٰ کی پیشن گوئی کی ہی وجہ سے عیسائیوں نے اپنے پورے دورِ حکومت میں کبھی بھی اسےدوبارہ  تعمیر نہیں کیا۔ اس جغرافیائی تحریف کا کچھ حصہ ساقیٔ کوثر جلد اول میں واضح کیا ہے اور جلددوم کا مکمل موضوع  اسی تحریف کو واضح کرنا ہے۔ اگرچہ دوسری جلد پر کام مکمل ہوچکا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے عبرانی زبان کے ساتھ مناسبت عطافرمادی اور اب دوبارہ سارے حوالے عبرانی  سے دینے کی کوشش جاری ہے۔ 

تورات کے پہلے باب سے خانہ کعبہ کی فضیلت  اور جمعے کی فضیلت کا ذکر

اگرچہ انہوں نے کتاب میں تحریف کی ہے مگر آج بھی عمومی ابراہیمی تعلیمات اپنی اصلی شکل میں ان کی کتاب میں موجود ہیں جنہیں صرف  مراد میں ہیر پھیر سے بدلاگیا ہے۔  آج بھی ان کی کتاب میں   مقدس سرزمین مکہ مکرمہ ہے ، مقدس دن جمعہ ہے۔ حضرت ابراہیم کی ہجرت سعودی عرب میں ہوئی تھی۔ حضرت یعقوب علیہ السلام نے  حضرت یوسف علیہ السلام کو تحائف سرزمین حجاز سے بھیجے وغیرہ ۔  یہاں صرف کتاب ِ  پیدائش  کے پہلے باب سے دوحوالے پیش ِ خدمت ہیں۔

ایل مقوم احد ( خدا کا اکلوتا مقام)

کتاب پیدائش  کے پہلے باب کی آیت نمبر ۹ میں  ہے:

וַיֹּ֣אמֶר אֱלֹהִ֗ים יִקָּו֨וּ הַמַּ֜יִם מִתַּ֤חַת הַשָּׁמַ֙יִם֙ אֶל־מָק֣וֹם אֶחָ֔ד וְתֵרָאֶ֖ה הַיַּבָּשָׁ֑ה וַֽיְהִי־כֵֽן׃

ویامر ایلوہیم  یقوو  ہمائیم متحت ہشمائیم ایل۔مقوم  احد وتراہ ہیبشہ ویہی۔کن

عمومی ترجمہ : اور خُدا نے کہا کہ آسمان کے نِیچے کا پانی ایک جگہ جمع ہو کہ خُشکی نظر آئے اور اَیسا ہی ہُؤا۔ 

 حقیقی ترجمہ: اور خدا نے کہا کہ جمع ہوجائیں پانی   آسمان کے نیچے خدا کی اکلوتی جگہ سےاور وہ جگہ خشک نظر آنے لگے اور ایسا ہی ہوا۔

بنیادی طور  پر عربی اور عبرانی ملتی جلتی زبانیں ہیں ۔ بظاہر اس کو ٹیڑھا کرکے بولنے کاآغاز بھی نحمیاہ نے شروع کیا تاکہ  عربوں سے کتاب کو چھپایا جاسکے آج بھی عبرانی کے الفاظ  عربی سے ملتے جلتے ہیں اس کے علماء کے ہتھے نہ چڑھ سکنے کی بنیادی وجہ  ہی اس کے رسم الخط کا مختلف ہونا نیز ان کے تلفظ کا الگ ہونا ہے۔  میں کوشش کررہا ہوں کہ اسے فارسی اور عربی رسم الخط میں لکھوں تاکہ ہمارے علماء کے لئے استفادہ آسان ہو۔

وضاحت ِ مفردات:  اس آیت میں پہلا لفظ  یامر ہے جوکہ عبرانی میں کہنے کے معنی میں مستعمل ہے ، ایلوہیم ایل  کی یا الہ کی جمع ہے جس کے معنیٰ خدا کے ہیں۔ تورات میں عمومی طور پر یہ لفظ ادب کے لئے  جمع ہی استعمال ہوتا ہے اور خدا کی ذات کے واحد ہونے کے اظہار کے لئے صیغہ واحد کا استعمال کیا جاتا ہے۔    یقوو کے معنیٰ ایک جگہ جمع ہونا  کیا جاتا ہے۔ اسے عربی کے قوی سے ماخوذ بھی مانا جاتا ہے ۔ [1]  ہمائیم   میں ہ اضافی ہے یہ انگریز ی آرٹیکل کی طرح تقریباہر لفظ کے شروع  میں لگا دیا جاتا ہے۔ مائیم کو مای یا ماو کی جمع مانا جاتا ہے اس کی اصل آشوری زبان سے ماخوذ مانی جاتی ہے۔  اس کا معنیٰ پانی  ہے ۔ متحت اصل میں دولفظ ہیں ایک م اور دوسرا تحت ، میم عبرانی میں جس طرح عربی کی طرح  ظرفیت ، مصدریت  وغیرہ معنی دینے کے کام آتی ہے اسی طرح بطور    پری پوزیشن  من کے معنیٰ دینے   کے لئے بھی استعما ل کی جاتی ہے یعنی سے کے معنی میں اور تحت بعینہ عربی والے تحت  کے معنیٰ میں  ہے۔ ہشمائیم میں ہ زائدہ اور شمائیم دراصل عربی کا لفظ سماء ہے۔ ایل کا معنیٰ  خدا کے ہیں ۔  تورات میں کی جانے والی تحریفات میں سے پہلی تحریف جو مجھے ملی وہ   اس مقام پر کی گئی ہے۔ عبرانی میں ایل  کے اصل معنیٰ خدا کے ہیں۔   جبکہ عربی کے "الی "یعنی 'تک' کے معنیٰ کے لئے عبرانی میں صرف لام  استعمال ہوتا ہے جیسا اس سے پہلے کی  ابتدائی آیات میں بھی  اس معنیٰ میں لام استعمال ہوچکا ہے۔ میں نے 'ایل ہارض'  استعمال   کا تتبع کیا تو اکثر جگہیں وہی ہیں جہا ں خدا کی مخصوص سرزمین کی بات کی گئی ہے۔ جبکہ کچھ جگہوں پر انہوں 'لِ ہارض ' کو ایل ہارض  کیا لگا ہے تاکہ اصل بات کو چھپایا جاسکے اور ایل کو مطلقا 'تک ' کے معنیٰ میں استعمال کیا جاسکے۔  مقوم  عربی مقام کا متبادل ہے۔ احد ایک  اور اکلوتے کو کہتے ہیں ۔ ترا بھی عربی رای یرای کی طرح دیکھنے کے معنیٰ میں مستعمل ہے۔ یبشہ جف کے معنی میں ہے یعنی خشک ہونا  اور یہی کا معنی ایسا ، ویسا اور کن کا معنی ٰ ہونا ہے۔ جبکہ بائبل کے عمومی ترجمہ میں اس جگہ  ایل کا ترجمہ الی کا کیا گیا ہے۔  پوری جغرافیائی تحریف میں ایل ہارض  خدا کی سرزمین کو  زمین کی طرف ترجمہ کیا جاتا ہے تاکہ حقیقت کو چھپایا جاسکے ۔ پہلے باب میں استعمال کیا گیا لفظ ایل مقوم احد اہل کتاب کو واضح راہنمائی دیتا ہے کہ دو قبلے کی کوئی گنجائش نہیں اور خدا کی جگہ صرف ایک ہے۔   دنیا کو کعبہ کی جگہ اور مکہ سے بنائے جانے کی قرآن سے دلیل  اسے ام القری قرار دینا ہے۔ جبکہ احادیث میں اگر تلاش کریں تو  اس معنیٰ میں بہت سی احادیث وارد ہیں حوالے کے لئے کچھ پیش خدمت ہیں۔

«أخبار مكة للأزرقي» (1/ 31):

قَالَ كَعْبُ الْأَحْبَارِ: «كَانَتِ الْكَعْبَةُ غُثَاءً عَلَى الْمَاءِ قَبْلَ أَنْ يَخْلُقَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضَ بِأَرْبَعِينَ سَنَةً، وَمِنْهَا دُحِيَتِ ‌الْأَرْضُ»

«فضائل مكة - الحسن البصري» (ص19):

«وَقَالَ رَسُول الله صلى الله عَلَيْهِ وَسلم دحيت الأَرْض من مَكَّة فَمدَّهَا الله تَعَالَى من تحتهَا فسميت أم الْقرى

وَأول جبل وضع فِي الأَرْض أَبُو قبيس وَأول من طَاف بِالْبَيْتِ الْمَلَائِكَة قبل أَن يخلق الله تَعَالَى آدم عَلَيْهِ الصَّلَاة وَالسَّلَام بألفي عَام وَمَا من ملك يَبْعَثهُ الله تَعَالَى من السَّمَاء الى الأَرْض فِي حَاجَة الا اغْتسل من تَحت الْعَرْش وانقض محرما فَيبْدَأ بِبَيْت الله تَعَالَى فيطوف بِهِ اسبوعا»

«أخبار مكة للأزرقي» (1/ 32):

عَنْ مُجَاهِدٍ، قَالَ: «لَقَدْ خَلَقَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ مَوْضِعَ هَذَا الْبَيْتِ قَبْلَ أَنْ يَخْلُقَ شَيْئًا مِنَ ‌الْأَرْضِ بِأَلْفَيْ سَنَةٍ، وَإِنَّ قَوَاعِدَهُ لَفِي ‌الْأَرْضِ السَّابِعَةِ السُّفْلَى»

«أخبار مكة للأزرقي» (1/ 76):

«كَانَ مَوْضِعُ الْكَعْبَةِ قَدْ سَمَّاهُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ بَيْتًا قَبْلَ أَنْ تَكُونَ الْكَعْبَةُ فِي ‌الْأَرْضِ، وَقَدْ بُنِيَ قَبْلَهُ بَيْتٌ، وَلَكِنَّ اللَّهَ سَمَّاهُ بَيْتًا، وَجَعَلَهُ اللَّهُ مُبَارَكًا وَهُدًى لِلْعَالَمِينَ، قِبْلَةً لَهُمْ»

«أخبار مكة - الفاكهي» (2/ 270 ط 4):

«عن مجاهد، قال: وضع الحرم قبل ‌الأرض بألفي سنة، ومنه دحيت ‌الأرض»

«تفسير الطبري جامع البيان - ط دار التربية والتراث» (3/ 60):

«عن مجاهد قال: كان موضع البيت على الماء قبل أن يخلق الله السموات والأرض، مثل الزبْدة البيضاء، ومن تحته دحيت الأرض»

«تفسير الطبري جامع البيان - ط دار التربية والتراث» (3/ 60):

«قال عطاء وعمرو بن دينار: بعث الله رياحا فصفقت الماء، فأبرزت في موضع البيت عن حشفة كأنها القبة، فهذا البيت منها. فلذلك هي"أم القرى". قال ابن جريج، قال عطاء: ثم وَتَدها بالجبال كي لا تكفأ بميد، فكان أول جبل"أبو قيس"»

ט֖וֹב מְאֹ֑ד  اچھا تہوار

تخلیق کا چھٹادن  خدا کی نظر میں اچھاتہوار

کتابِ پیدائش کے پہلے باب میں آسمان وزمین اور ابتدائے تخلیق کے مختلف لمحات کی پہلے دن دوسرے دن ، تیسرے دن کے ساتھ وضاحت کی گئی ہے۔ مثلا پہلے دن (یعنی اتوار کے دن )خدا نے یہ  کام کئے دوسرے دن(یعنی پیر کے دن)  یہ کام کئےوغیرہ ۔اسی باب کی آخری آیت جو کہ ۳۱ نمبر ہے میں  چھٹے دن  یعنی جمعے کے دن کے واقعات بیان  فرمانے کے بعد اس کی تحسین میں استعمال ہونے والے لفظ میں  موعد کا لفظ مذکور ہے۔

וַיַּ֤רְא אֱלֹהִים֙ אֶת־כׇּל־אֲשֶׁ֣ר עָשָׂ֔ה וְהִנֵּה־ט֖וֹב מְאֹ֑ד

۳۱۔ ویرا ایلوہیم ایت۔کل۔اشر عشہ وہنہ۔طوب موعد

عمومی ترجمہ : اور خُدا نے سب پر جو اُس نے بنایا تھا نظر کی اور دیکھا کہ بہت اچھّا ہے

حقیقی ترجمہ: اور خدا  نے دیکھا ہر چیز کو جو اس نے بنائی  اور دیکھااسے  اچھا وقت /تہوار

  وضاحت ِ مفردات:  اس آیت میں پہلا لفظ یرا ہے جس کے معنیٰ دیکھا ،ایلوہیم کا معنیٰ خدا، ایت بھی آرٹیکل ہے متعدی کرنے کے لئے استعمال ہوتا ہے۔  کل عربی کے کل کی طرح سب  کا معنیٰ دیتا ہے اشر اسم موصول ہے جوکہ  کا معنیٰ دیتا ہے، عشہ کا معنیٰ بنانا ہے اور ہنہ کا معنیٰ دیکھنا ہے یہ بظاہر عربی عاین کے مشابہ ہے۔ طوب  عربی لفظ طیب اور طوبیٰ کی طرح  عمدہ اور اچھا کا معنیٰ دیتا ہے۔ اگلا لفظ جس کی وضاحت خاص کرضروری ہے وہ موعد ہے۔بائبل کے عمومی ترجموں میں یہاں موعد کے لفظ کا ترجمہ بڑھا ہوا یا زیادہ  کیا جاتا   ہے۔ حالانکہ مشنا اور تالمود کی دوسری کتاب  کا نام اسی لفظ سے ماخوذ ہے جس کے معنیٰ تہوار یا مقررہ  وقت قرار دیا جاتا ہے۔ ویسے تو یہودی تہواروں کو بھی ان کے ٹائم پر نہیں مناتے بلکہ اپنی مرضی سے آگے پیچھے کرتے ہیں۔ اگر اس کا ترجمہ معروف موعد کے معنیٰ میں کیا جائے تو اس کا مطلب   بنتا ہے کہ جمعہ کے آخری دن  کو جو کہ چھٹا دن بنتا ہے خدا نے اچھا وقت یا اچھا تہوار سمجھااور اگر خاص طور پر جمعہ کے دن کا آخری پہر مراد لیا جائے تو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہاکی روایت کے مطابق  درست ہوگا۔ 

یہاں پر موعد کے معنیٰ تہوار ہونے کی دلیل بھی قرآنِ کریم میں مذکورہے کیونکہ قرآن ِ کریم میں صراحتا بتایا گیا ہے کہ اتباع ملۃ ابراہیم کی ہی کرنی ہے۔ اور جو یہودیوں کو ہفتہ بطور تہوار منانے کی اجازت ملی  وہ بطور سز ا کے ہے۔  

ﵟثُمَّ أَوۡحَيۡنَآ إِلَيۡكَ أَنِ ٱتَّبِعۡ مِلَّةَ إِبۡرَٰهِيمَ حَنِيفٗاۖ وَمَا كَانَ مِنَ ٱلۡمُشۡرِكِينَ ١٢٣ إِنَّمَا جُعِلَ ٱلسَّبۡتُ عَلَى ٱلَّذِينَ ٱخۡتَلَفُواْ فِيهِۚ وَإِنَّ رَبَّكَ لَيَحۡكُمُ بَيۡنَهُمۡ يَوۡمَ ٱلۡقِيَٰمَةِ فِيمَا كَانُواْ فِيهِ يَخۡتَلِفُونَ ١٢٤ ﵞ [النحل: 123-124]          

ترجمہ : پھر ہم نے آپ کی طرف وحی کی کہ ملت ابراہیم جو کہ درست ہے کی پیروی کرو اور حضرت ابراہیم مشرکوں میں سے نہ تھے۔ ہفتہ تو صرف انہی کے لئے مقرر کیا گیا جنہوں نے اس میں اختلاف کیا۔ اور بیشک تیرا رب ان میں فیصلہ فرمادے گا  قیامت کے دن جس بارے میں وہ اختلاف کرتے ہیں۔

[1] "Strong’s Hebrew: 6960. קָוָה (qavah) -- To wait, to look for, to hope, to expect", تاريخ الوصول 13 يونيو، 2025, https://biblehub.com/hebrew/6960.htm.

 

Wednesday, June 25, 2025

لاتکفرہ بذنب ولا تخرجہ من الاسلام بعمل مولانا اشرف علی تھانوی کا ملفوظ


 

ایران اسرائیل جنگ کے دوران ایران کی سپورٹ میں لکھی گئی کچھ پوسٹیں ۔ یاد دہانی کے لئے محفوظ کی جارہی ہیں

گر حفظ مراتب نکنی زندیقی

اسلام میں حفظ مراتب ایک اہم اصول ہے۔جس طرح فرض، واجب، مکروہ، حرام ایک لاٹھی سے نہیں ہانکے جاسکتے اسی طرح لوگوں کے مختلف طبقات برابر نہیں قرار دئیے جاسکتے۔ آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے رومی اور مجوسی جنگ میں رومیوں کی طرف داری فرما کر اسی درجہ بندی کو واضح فرمایا۔ اسی اصول کی بناء پر کفر کے خلاف جنگ میں اہلسنت والجماعت نے ہر دور میں شیعوں کو نا صرف سپورٹ کیا ہے بلکہ ان کے شانہ بشانہ لڑے ہیں۔ نور الدین زنگی، صلاح الدین ایوبی سے لےکر موجودہ ایران اسرائیل جنگ تک یہ ایک زمینی حقیقت ہے۔ اس کے برعکس شیعہ حضرات کی سنیوں کے خلاف جو تاریخ ہے عباسی خلیفہ کے شیعہ وزیر علقمی سے میر جعفر میر صادق تک اور آج کے بشار تک وہ بھی اپنی جگہ حقیقت ہے، جس کی وجہ سے ہمارے کچھ ساتھی اسرائیل اور ایران میں فرق نہیں سمجھ پارہے۔ انہیں یہ سمجھنا چاہیے کہ فرق مراتب ایک حقیقت ہے۔ ایک تو وہ مسلم کہلاتا ہے پھر اس خبیث ریاست کے مقابلے میں کھڑا ہے جو سارے کفر کا غرور ہے۔ لہذا اسرائیل کے خلاف ایران کا ساتھ دینا ہمارا فرض بھی ہے، تاریخ بھی ہے اور تہذیب بھی۔

ایران کا ساتھ کیوں دیں؟


prosdtSoentu21me4 c0g50ama t0u65M9A2uh115hJ10fh77:7a 0nu440 

 · 
Shared with Public
دوست کا دوست، دوست ہوتا ہے۔ فلسطین دوست کا دوست ایران ہمارا دوست ہے۔
دشمن کا دشمن بھی دوست ہوتا ہے۔ لہذا دشمن اسرائیل کا دشمن ایران ہمارا دوست ہے۔

حال کے امر اور وقت کی ضرورت کو سمجھنا تفقہ ہوتا ہے۔ ہماری صحابہ اور اہلبیت سے محبت اپنی جگہ پر ہے۔ اور جنگی حکمت عملی اپنی جگہ پر ہے۔ یہ جنگ پوری دنیا کو دو حصوں میں تقسیم کرنے والی ہے۔ جو ایران کی طرف داری کرنے سے کترائے گا اسنے اسرائیل کی جانب منتخب کر لی ہے۔ جنگوں میں وحدت کلمہ لازمی چیز ہے۔ نادانی اور ضد میں غلط صف کا انتخاب مت کریں۔ 


اہلسنت والجماعت کے جو لوگ ایران کو سپورٹ نہیں کر رہے وہ معذور ہیں

s

oeondrpSt77g0aft1m2a2ugn4M lu1 cPh33:550e4hm7aJ 419ct4a641

Shared with Public

اگر اہلسنت والجماعت میں کچھ لوگوں کو ابھی تک ایران کے ظالمانہ رویے کی وجہ سے اسے سپورٹ کرنے کا حوصلہ نہیں کر پارہے تو وہیں ان شیعہ حضرات اور ان کے طرفداروں کو جو اہلسنت پر طنز و تشنیع کے تیر چلا رہے ہیں کو اپنے رویے پر غور کرنا چاہئے۔ ایران نے جو اپنے پڑوسی ممالک کو تکلیفیں پہنچائی ہیں اور اہل تشیع نے اہلسنت پر جو ظلم ڈھائے ہیں وہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں۔ اس تمام تاریخ کے باوجود سوائے اردن اور مصر کے تمام ممالک ایران کے ساتھ کھڑے ہیں۔ مشترکہ دشمن کا مقابلہ کرنے کے لئے اکیلے ایران کی استعداد پہلے دن ہی نظر آگئی تھی۔ اگر ایران کچھ دم خم دکھا رہا ہے تو ظرف والوں کے ساتھ کی وجہ سے ہے۔ لہذا ایران کی طرف داری میں اہلسنت پر طنز سے احتراز کریں۔ جنگیں تبھی جیتی جاتی ہیں جب آپس میں اتفاق ہو اور وحدت کلمہ ہو۔ ورنہ شیعے بھی جوتے کھائیں گے اور اہلسنت بھی۔ ایک دوسرے کے لحاظ کے ساتھ جینا سیکھیں۔ شکریہ


میرا پیغام محبت ہے جہاں تک پہنچے۔

میں سپاہ صحابہ سے محبت کرتا ہوں کیونکہ انہوں نے امت کو دوبارا صحابہ سے محبت کرنا سکھایا۔اہلسنت والجماعت شیعوں کے پروپیگنڈے کی وجہ سے جن صحابہ سے خاص کر حضرت معاویہ رضہ اللّٰہ سے دستبردار ہوگئے تھے۔ دوبارا نہ صرف محبت کرنے لگے بلکہ اپنے بچوں کا نام رکھنے لگے۔ حضرات شیخین ابوبکر وعمر اورحضرات ختنین عثمان وعلی رضوان اللہ علیہم اجمعین کے مقام کو امت پر واضح کیا حضرت امی عائشہ رضی اللّٰہ عنہا کے لئے مسلمانوں میں غیرت اور محبت کو بیدار کیا۔ اور اس کاز کے لئے بے حد قربانیاں دیں۔اللہ تعالیٰ ان کو بہترین جزائے خیر عطا فرمائیں۔
میں تبلیغی جماعت سے محبت کرتا ہوں کیونکہ انہوں نے اپنا جان مال وقت لگا کر دور دراز کے ملکوں شہروں دیہاتوں قصبوں میں بغیر کسی مفاد کے لوگوں کو دین پر لانے کے لئے کوشش کی۔ میں جمعیت علمائے اسلام اور تمام اسلامی سیاسی پارٹیوں سے محبت کرتا ہوں کیونکہ انہوں نے بے دینوں کے خلاف اسمبلی میں اسلام کی حفاظت کی۔ میں بریلوی حضرات سے محبت کرتا ہوں کیونکہ جناب نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم کی والہانہ محبت اور عشق انہوں نے عوام میں منتقل کیا۔ میں اہلحدیث حضرات سے محبت کرتا ہوں کیونکہ انہوں نے امت کو شخصیتی جمود میں مبتلا ہونے سے بچایا توحید کو عام کیا۔ میں ان تمام حضرات کو اہلسنت والجماعت سمجھتا ہوں۔ ان میں اتفاق کے لئے میری رائے یہ ہے کہ ہر جماعت کا شخص اپنے علماء سے مسئلہ پوچھ کر اس پر عمل کرے۔ خوامخواہ بحث مباحثہ دین کی خدمت نہیں بلکہ دین سے دور کرنا ہے۔
شیعہ حضرات کی اچھی بات یہ ہے کہ وہ اہلبیت سے محبت کرتے ہیں ان کے نظریات ان کا ذاتی مسئلہ ہیں جس کے وہ اللّٰہ کے سامنے جوابدہ ہیں۔ یہ ایک اہم بات ہے کہ شیعہ حضرات کے ساتھ اہلسنت کی شادی نہیں ہوسکتی۔ ظاہر ہے ہر کوئی اپنے ہم عقیدہ لوگوں سے ہی رشتے داری کرتا ہے۔ البتہ شیعہ حضرات سے مجھے شکایت یہ ہے کہ وہ اہلسنت والجماعت کے پسندیدہ اور محبوب شخصیات کے بارے میں دل دکھاتے ہیں۔ جس کی وجہ سے ہمیشہ تلخیاں پیدا ہوتی ہیں۔اگرچہ کفر کے مقابلے میں اہلسنت آپ کو سپورٹ کرتے ہیں ۔ جن سے آپ محبت کرتے ہیں اہلسنت ان تمام سے محبت کرتے ہیں۔ اگر شیعہ حضرات اہلسنت کے معتقدات کی توہین نہ کرنے کی گارنٹی دے دیں تو امت سیسہ پلائی دیوار بن جائے۔ کاش شیعہ حضرات یہ کرلیں۔