انسانوں کی اگر اعتقادیات کے لحاظ سے تقسیم کا مطالعہ کریں تو سب سے پہلے لوگ دو حصوں میں تقسیم ہوتے ہیں سیکولر اور مذہبی
پھر مذہبی دو حصوں میں تقسیم ہوتے ہیں مشرک اور موحد
پھر موحد دو حصوں میں تقسیم ہوتے ہیں خانہ کعبہ کو قبلہ اور نبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم کو آخری نبی ماننے والے یا اس کے بر خلاف مرکز اور محور ماننے والے
پھر اھل قبلہ کی دو قسمیں ہیں اہلسنت والجماعت اور غیر اہلسنت
پھر اہلسنت کی دو قسمیں ہیں مقلد اور غیر مقلد
پھر مقلدین میں حنفی اور غیر حنفی
پھر حنفیوں میں پاکستان میں دو قسمیں ہیں دیوبندی اور بریلوی
پھر دیوبندیوں میں دو سیاسی پارٹیاں ہیں جمعیت اور سپاہ ۔ ہر قسم اپنے مقسم میں متحد ہے۔ لہذا اتحاد کی فطری صورت یہ ہے کہ بریلوی کے مقابلے میں جمعیت اور سپاہ ایک ساتھ ہوں۔ غیر حنفی کے مقابلے میں بریلوی دیوبندی ایک ہوں۔ غیر مقلد کے مقابلے میں تمام مقلدین ایک ساتھ ہوں۔ غیر اہلسنت کے مقابلے میں اہلسنت ایک ساتھ ہوں۔ غیر قبلہ کے مقابلے میں اہل قبلہ ایک ساتھ ہوں مشرک کے مقابلے میں موحد ایک ہوں اور سیکولر کے مقابلے میں اہل مذہب ایک ہوں۔
ہماری پاکستان کی جمہوری سیاست میں بنیادی مقصد 73 آئین کی اسلامی شقوں کا نفاذ ہے۔ اور ملک سے انگریزی دور کے قوانین کو ختم کرکے اسلامی معاشرے کی بنیاد ڈالنا ہے۔ جس پر تمام اہل قبلہ (خانہ کعبہ ظاہری اور حضور صلی اللّٰہ علیہ وسلم باطنی) کا جمع ہونا عین قرین قیاس ہے۔ ایسے میں کسی ذیلی پارٹی کا اپنے فطری پارٹنر کے برعکس غیر فطری پارٹنرز سیکولر اور غیر اھل قبلہ کا کام آسان کرنا یا ان کو سپورٹ کرنا نا قابل فہم ہے۔ اور اتحاد کا ظاہری مطلب ہی یہی ہوتا ہے کہ اختلافیات پر سکوت کیا جائے گا۔ اگر اختلافیات پر سکوت کرکے آگے بڑھنا نہ ممکن ہوتا تو میاں بیوی کبھی بچہ پیدا نہ کر پاتے۔
اصل مسئلہ درست دشمن کی تعیین ہے۔ اور پھر اپنے اتحادیوں کا چناؤ ہے۔ پاکستان میں ہمارا بڑا دشمن ملحد سیکولر اور غیر مسلم ہیں یا شیعہ۔ شیعہ کو ساتھ ملا کر اور سیکولر ملحد کو بنیادی دشمن مان کرہم ملک میں دینی فضا بنا سکتے ہیں اور اسلامی قانون کے نفاذ کی جدو جہد میں آگے جاسکتے ہیں۔ جب کہ شیعہ کے ساتھ الجھنے کا سیدھا سا مطلب سیکولر لابی کے لئے راستہ خالی چھوڑنا ہے۔ نفاذ اسلامی کے بنیادی مقصد سے بھی محروم ہوں گے۔شیعوں کا بھی کچھ کر نہیں سکیں گے۔
فافھم
